تُرک وزیر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ لیبیا کے باغی اور جنگجو خلیفہ ہفتار کو مذاکرات کی میز پر دعوت کسی صورت نہیں دی جا سکتی۔
سی این این تُرک کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خلیفہ ہفتار لیبیا پر اپنے جنگجو اور ملیشیا کے ذریعے قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ جب بھی کبھی خلیفہ ہفتار کو جنگ بندی کی دعوت دی گئی انہوں نے اسے مسترد کر دیا۔ اس لئے تُرکی کسی بھی صورت میں خلیفہ ہفتار کو مذاکرات کیلئے دعوت نہیں دے گا اور ان کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ لیبیا میں ابھی تک جنگ بندی کا کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے۔ روس اور جرمنی کی کوششوں کے باوجود خلیفہ ہفتار نے اپنے رویئے سے ثابت کیا کہ وہ لیبیا میں خانہ جنگی کا خاتمہ نہیں چاہتے ہیں۔
اس سال جنوری میں ماسکو میں جنگ بندی کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات سے خلیفہ ہفتار کوئی وجہ بتائے بغیر چھوڑ کر چلے گئے تھے جس کے بعد سے اب تک لیبیا میں خانہ جنگی کو ختم کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔ خلیفہ ہفتار لیبیا کی اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ نیشنل گورنمنٹ آف ایکورڈ کے ساتھ برسر پیکار ہے۔
ترک وزیر خارنہ نے کہا کہ ترکی اور لیبیا کے درمیان سیکیورٹی معاہدے کو مستقبل میں بھی جاری رکھیں گے۔ ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان فوجی معاہدے کئے گئے ہیں۔ ترکی نے لیبیا کے ساتھ مفاہمت کی کئی یاداشتوں پر دستخط کئے ہوئے ہیں۔ ہر معاہدے کی معیاد ختم ہوتے ہی اسے دوبارہ اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ لیبیا کے ساتھ سمندری حدود کا تنازعہ طے ہو چکا ہے۔ ترکی مستقبل میں لیبیا کے ساتھ مزید کئی معاہدے کرنا چاہتا ہے۔
نومبر 2019 میں ترکی اور لیبیا کے درمیان فوجی تعاون کا ایک معاہدہ طے ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ترکی نے لیبیا کے ساتھ اپنی سمندری حدود کا تنازعہ بھی طے کر لیا ہے۔
فوجی معاہدے کے تحت ترکی نے اپنی فوج لیبیا بھیجی جس نے خلیفہ ہفتار کے جنگجو ملیشیا کو شکست دی اور ان سے دارالحکومت تریپولی اور اس کے مضافات کے علاقے خالی کروائے۔ روس، فرانس اور متحدہ عرب امارات مسلسل خلیفہ ہفتار کی حمایت کر رہے ہیں۔
خلیفہ ہفتار اپریل 2019 سے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ لیبیا کی حکومت پر حملے کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں اب تک ایک ہزار افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
علاوہ ازیں ٹرکش امریکن اسٹیئرنگ کمیٹی کے ساتھ ویڈیو لنک کے ذریعے بات چیت کرتے ہوئے ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ اور ترکی آنے والے دنوں میں لیبیا کی آئینی حکومت کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر طیب اردوان کے درمیان بھی لیبیا کی آئینی حکومت کو سپورٹ کرنے پر بات چیت ہو چکی ہے۔ صدر ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردوان نے کہا ہے کہ نئی منتخب حکومت آنے تک لیبیا کی موجودہ آئینی حکومت کی حمایت جاری رکھی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ فرانس ابھی تک لیبیا کی جنگجو ملیشیا کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے جس کی وجہ سے لیبیا میں خانہ جنگی ختم نہیں ہو سکی اور حالات خراب ہیں۔ انہوں نے فرانس کو خبردار کیا کہ اگر تُرک بحری جہازوں کو روکا گیا تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔