turky-urdu-logo

جرمنی نے 2 ہزار 400 افغان ملازمین کو ویزے جاری کر دیے

جرمن حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملک کی فوج کے 2 ہزار 400 افغان ملازمین اور ان کے رشتہ داروں کو ویزے جاری کردیے ہیں لیکن ان میں سے تمام فوری طور پر جرمنی نہیں آنا چاہتے۔

افغانستان میں امریکا کے بعد دوسرا بڑا دستہ رکھنے والی جرمن فوج نے، جس نے 20 سال تک ملک کے شمال پر توجہ مرکوز رکھی، اپنا آخری دستہ بھی گزشتہ ہفتے افغانستان سے بلا لیا ہے۔

اپریل میں جرمن وزیر دفاع اینگریٹ کرامپ کرینبر نے کہا تھا کہ جرمنی کی یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر محفوظ مقامی افراد، جنہوں نے خود کو خطرے میں ڈال کے فورسز کی مدد کی، انہیں تنہا نہ چھوڑا جائے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان رائنر بریول نے کہا کہ حالیہ ہفتے مقامی ملازمین اور ان کے اہل خانہ کے لیے 2 ہزار 400 جرمن ویزوں کی منظوری دی گئی ہے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ افواج کے انخلا اور مزارِ شریف میں واقع جرمن قونصل خانے کو بند کرنے کا مرحلہ دشوار ہے لیکن انہوں نے کہا کہ برلن، بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین جو پارٹنرز کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیکیورٹی کی صورتحال کے باعث دفتری کام تاحال شروع نہیں کیا گیا ہے۔

ترجمان جرمن وزارت دفاع ڈیوڈ ہیلمبولڈ نے کہا کہ فوج بلانے سے قبل 446 مقامی ملازمین اور ان کے اہل خانہ سمیت مجموعی طور پر 2 ہزار 250 افراد کو سفری دستاویزات دی گئی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب نسبتاً کم درخواستوں کی ہی گنجائش باقی ہے۔

ڈیوڈ ہیلمبولڈ نے برلن میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جن افراد کو یہ کاغذات موصول ہوئے ان میں سے تمام افراد جلد وطن چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں۔
ان میں متعدد ملازمین ایسے ہیں جنہوں نے کہا کہ جب تک ممکن ہوا وہ افغانستان میں رہنا چاہتے ہیں اور سیکیورٹی صورتحال خراب ہونے پر وطن چھوڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وہ جلد وطن نہ چھوڑنے والے افراد کی تعداد نہیں بتا سکتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے امریکی فوج نے افغانستان میں اپنی سب سے بڑی ایئربیس خالی کردی تھی اور پینٹاگون نے کہا تھا کہ حتمی انخلا اگست کے آخر تک مکمل ہوگا۔

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا عمل بڑی حد تک مکمل ہوچکا ہے اور جرمنی سمیت بہت سے اتحادیوں نے رواں ہفتے اپنی فوجیں واپس بلالی ہیں۔

Read Previous

پاکستان ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کی قدر کرتا ہے، پاکستانی آرمی چیف

Read Next

طالبان کا افغانستان کے 200 سے زائد اضلاع پر قبضے کا دعوی

Leave a Reply