
تحریر : ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ
فجر کی نماز ختم ہوئی تو میں دعا مانگنے بیٹھ گیا آج بس ایک ہی دعا بار بار لبوں پر آ رہی تھی کہ اے اللّٰہ دوبارہ یہ سر زمین دکھانے کی توفیق عطا فرما
دعا ختم کر کے میں نے ادھر ادھر دیکھا ڈاکٹر حلاق کہیں نظر نہیں آ رہا تھا اس نے فجر کی نماز کے بعد ملنے کا وعدہ کیا تھا
عام طور پر وہ جب بھی یہاں موجود ہوتا تو امام کے پیچھے پہلی صف میں دائیں جانب منبر کے ساتھ کھڑا نظر آتا تھا
لیکن آج وہ نہیں تھا میں مسجد سے باہر نکل کر کھڑا ہوگیا اور ایک بار پھر اسے متلاشی نظروں سے ڈھونڈنے لگا
لیکن وہ کہیں نظر نہیں آئی۔
آج ہمارا یروشلم میں آخری دن تھا اور ساڑھے سات بجے ہمیں اردن کے لئے روانہ ہونا تھا میں اسے ملے بغیر اور اس کا شکریہ ادا کئے بغیر واپس نہیں
جا نا چاہتا تھا
اتنے میں حمزہ اور بلال بھی میرے پاس آکر کھڑے ہوگئے
میں نے ان دونوں کو ڈاکٹرحلاق کی تلاش میں مختلف اطراف میں بھیج دیااور خود مسجد کے دروازے کے باہر بیٹھی ام خالد سے کچھ کھجوریں اور بسکٹ لئے اور دوسرے ہاتھ میں چائے کا کپ تھامے
مسجد کے سامنے بنے ایک چبوترے پر آ کر بیٹھ گیا جس پر ایک پرانا کئی سو سالہ زیتون کا درخت سایہ گیر تھا
اور چائے کی چسکی لیتے ہوئے سوچنے لگا کہ حلاق نے ہمیں جمعہ کی رات عشائیہ پر اپنے گھر مدعو کر رکھاتھالیکن جمعہ کی نماز کے بعد جب وہ ملا تو کچھ جلدی میں نظر آرہا تھا اس نے بہت معذرت کی اور بتایا کہ اسے ایمر جنسی نابلوس جانا پڑ رہاہے جہاں اسے کچھ آپریشن کرنے تھے اس نے مجھے بھی اپنے ساتھ جانے کی دعوت دی وہ مجھے نابلوس کا ہسپتال دکھانا چاہتا تھا
لیکن ہم چونکہ مسجد اقصٰی کے امام شیخ علی العباسی کے ہاں ظہر انے پر مدعو تھے لہذاٰ میں نے معذرت کرلی دل تو بہت چاہتا تھا کہ مجھے اس کے ساتھ ضرور جانا چائیے لیکن مصلحتیں آڑے آرہی تھیں
مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ یہاں ہر جگہ نادیدہ نگاہیں ہماری نگرانی کر رہی ہیں اور میرا کوئی جذباتی قدم اسرائیل سے واپس جانے میں رکاوٹیں کھڑی کر سکتاہے چنانچہ دل پر پتھر رکھ لیا
اور وہ اس وعدے کے ساتھ رخصت ہوگیا کہ اگلے دن فجر کے بعد ہمیں ملے گا
جلد ہی حمزہ اور بلال دونوں نفی میں سر ہلاتے واپس آ گئے تھے
میں ابھی اسے فون کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس کی کال آگئی
وہ بہت معذرت کر رہاتھا کہ ابھی تک نابلوس میں پھنسا ہوا ہے اور شائد اسے ایک دن اور وہاں رکنا پڑ جائے
پھر کہنے لگا ڈاکٹر اچھا ہوا تم میرے ساتھ نہیں آئے ورنہ میرے لئے تمہیں واپس بھیجنا مشکل ہوجاتا کیونکہ اسرائیلی فوج نے نابلوس کا محاصرہ کرلیا ہے اور سرچ آپریشن شروع کردیا ہے
پھر اسنے رابطے میں رہنے کی یقین دہانی کرائی اور یقین دہانی چاہی اورپھر خُداحافِظ کہہ کر فون بند کردیا
ہم واپس چل پڑے اور آہستہ آہستہ قبةصخراکے چبوترے کی سیڑھیاں چڑھنے لگے
آخر ی سیڑھی پر رک کر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا مسجد اقصٰی کی پیشانی پر لگی روشنیاں چڑھتے سورج کی چمک کے سامنے ماند پڑنے لگی تھیں باہر سے بظاہر بھدی نظر آنے والی اس عمارت سے عجیب سی جاذبیت جھلک رہی تھی جیسے نور کی بارش ہورہی ہو
مجھے وہ بہت اچھی لگی
میرا دل بھر آیا
آنکھیں نم ہوگئیں
جیسے میں اپنے کسی بہت ہی قریبی عزیز سے رخصت ہو رہا ہوں اپنی کوئی بہت ہی قیمتی شئے پیچھے چھوڑے جا رہا ہوں۔
میں آخری سیڑھی پر بیٹھ گیا
میں نے ایک ثانیہ کے لئے اس عمارت کو جی بھر کر دیکھا اور پھر اپنی آنکھیں بند کر لیں میں اس منظر کو اپنے اندر اتار لینا چاہتا تھا دل کے نہاں خانوں میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لینا چاہتا تھا اپنی روح میں سمو لینا چاہتا تھا
پھر آنکھیں کھول کر ایک بار پھر اسے آخری بار دیکھا اور اٹھ کر تیزی سے آخری سیڑھی چڑھ کر قبةصخرا کے چبوترے پر آگیا
اب سنہری گنبد والی عمارت میرے سامنے تھی میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مسجد اقصٰی میری نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی پتہ نہیں پھر کب ملاقات ہو
ملاقات ہوگی بھی یا نہیں یہی سوچتا ہوا میں آگے بڑھ گیا
Al Aqsa Mosque

طلوع ہوتے سورج کی نرم شعاعوں میں گنبد صخرا چمک رہا تھاجس سے امڈتی سنہری کرنیں ملگجے اندھیرے کا سینہ چیرتی ہوئی عجیب ہی منظر پیش کر رہی تھیں ۔
اس گنبد کی دلکشی دل موہ لے رہی تھی
حمزہ اور بلال نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تصاویر لینا شروع کر دیں
حمزہ اپنے بے وطن فلسطینی دوستوں کے لئے قبة صخرا کی تصویر پر ان کے نام لکھ کر انہیں بھیجنا چاہتا تھا
جن کے وطن پر غاصبوں کا قبضہ ہے وہ وطن ہوتے ہوئے بھی بے وطنی کی زندگی گذار رہے ہیں
دل اداس تھا بہت بوجھل تھا میرا دل تصویر کشی کے لئے آمادہ نہیں تھا میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا چبوترے سے نیچے اترا اور زیتون کے باغ کےدرمیان سے گذرتا ہوا باب حطہ والی گلی کے دروازے سے شہر میں داخل ہوگیا دروازے کے اندرونی سمت بنی پولیس چیک پوسٹ سے گذر کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو صبةصخرا بھی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا
سامنے سبز رنگ کا بھدا بڑا سا بھاری فولادی دروازہ میرامنہ چڑا رہا تھا
افسردہ دل لئے چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ میں جیسے ہی لائن گیٹ والی سٹریٹ
میں مڑا سامنے وہ اپنے منحوس چہرے لئے کھڑے تھے
ان کی تعداد میں اضافہ ہو چکا تھا
صبح فجر نماز کے لئے آتے وقت
وہ صرف چار تھے
لیکن اب درجن بھر ہوچکے تھے
اپنی آٹومیٹک گنوں کے منہ راہگزیروں کی طرف کئے اپنے اونچے اونچے مکروہ قہقہوں کے ساتھ آنے جانے والوں کو استہزائی نظروں سے دیکھ رہے تھے
میں انہیں نظرانداز کرتا باب الساہرہ ( Herod Gate) والی گلی میں مڑ گیا
ہر سو میٹر کے فاصلے پر لگے کیمروں کی نادیدہ نظریں آنے جانے والوں کو تاڑ رہی تھی
یروشلم کے مسلم کوارٹر میں زندگی دھیرے دھیرے جاگنے لگی تھی گلی کی دکانیں کھلنا شروع ہو گئی تھیں اکا دکا دکان کھلی نظر آرہی تھیں
ایک گھر سے مرغ کی اذان کی آواز سنائی دے رہی تھی
گلی کے بائیں جانب دیوار کے ساتھ گندگی کے ڈھیر لگے تھے
یروشلم سٹی کونسل مسلم کواٹرز سے مہینے میں صرف دو بار یہ کوڑا کرکٹ اٹھاتی ہے جبکہ جیوز کواٹرز اور کرسچیئین کواٹرز میں یہی کام ہفتے میں دو بار ہوتا ہے ۔
گلی کے نکڑ پر وہ بوڑھی عورت ہمیشہ کی طرح آج بھی ایک تھال میں پاپ کارن کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ لئے بیٹھی تھی
میں نے جیب ٹٹو لی اور جتنی ریزگاری مٹھی میں آئی اس کے تھال میں ڈال کر پاپ کارن کا ایک پیکٹ اٹھا لیا اور اسے کھول کر ایک پاپ کارن منہ میں ڈال لیا اور تنگ گلی کی چڑھائی چڑھنے لگا
پھر میں اس چار سو سالہ پرانی بیکری کے سامنے سے گذرا جہاں دکاندار آج بھی اپنے اسی صدیوں پرانے طریقے سے القدس کی روائتی روٹی” کائیک” بنا رہا تھا جو بڑی جلیبی کی شکل کی ہوتی ہے
اس کے سامنے ایک دکان میں ایک شخص فلسطینیوں کا روائتی ناشتہ بنا رہا تھا پچھلے ایک ہفتے میں دن میں کئی بار اس کی دوکان کے سامنے سے گذر ہوتا تھا۔ اب اس سے دوستی سی ہو گئی تھی ۔ اس نے مجھے پہچان کر سلام کیا اور اہلاً وسہلاًکہا اور اندر آنے کی دعوت دی لیکن میں اس کا شکریہ ادا کر کے آگے بڑھ گیا
حمزہ اور بلال کہیں بہت پیچھے رہ گئے تھے تھوڑی دور اور اوپر آیا تو آگے گلی میں ہمیشہ کی طرح وہ ننھی سی پیاری سی بچی ایک ڈبے میں کجھوریں لئے کھڑی تھی وہ روز اسی طرح آنے جانے والوں کو اہلاً و سہلاً کہہ کر کجھوریں پیش کرتی تھی
ریز گاری تو ختم ہو چکی تھی میں نے بیس شیکل کا نوٹ اس کے ڈبے میں ڈالا ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈالی اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر آگے بڑھ گیا-
گلی کے ان سارے لوگوں سے روز ملاقات ہوتی تھی ۔ اب ان سے ایک ان دیکھا رشتہ سا بن گیا تھا۔ یہ سب اپنے اپنے سے لگنے لگے تھے۔ جیسے میرا ان سے جنم جنم کا ساتھ ہو ۔ یہ گلی اس کا صدیوں پرانا پتھریلا فرش اس کے درو دیوار اس کے کنارے لگے گندگی کے ڈھیر ان سب سے ایک عجیب سی انسیت ہوگئی تھی ۔ لیکن اب یہ منظر یہ لوگ ہمیشہ کے لئے بچھڑنے والے تھے۔ یہ سوچ کرکہ اب ان لوگوں سے دوبارہ ملاقات نہیں ہوگی یہ نظارے دوبارہ نظر نہیں آئیں گے میری دل بھر آیا۔ آنکھیں چھلکنے لگیں ۔
تھوڑی دور جا کر دائیں جانب لڑکیوں کا ہائی سکول تھا جو آج بند تھا کیونکہ میں آج اشراق کی نماز پڑھے بغیر جلدی واپس آگیا تھا ورنہ روز اس سکول کے دروازے پرخوبصورت معصوم صورت پری جیسی بچیوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا
کچھ اور آگے دائیں جانب وہ مکان تھا جہاں امام غزالی نے اپنی کئی شہرہ آفاق کتابیں لکھیں اور اپنی زندگی کے دس سال گذارے تھے
اسی طرح چڑھائی چڑھتا میں اس گلی کے پاس سے گذرا جہاں سے زاویہ الہندی کو رستہ جاتا ہے
یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت بابا فرید گنج شکر نے چلہ کاٹا تھا
ہم کل شام ہی یہاں آئے تھے اور یہاں کے مہتمم نے ہمیں اس جگہ کی مکمل سیر کروائی تھی
اور پھر بھاری دل کے ساتھ نم آنکھوں کے گوشے ہاتھ کی الٹی سمت سے صاف کرتا آہستہ آہستہ سست قدموں سے چلتا باب السائرہ سے گذرتا شہر سے باہر آگیا۔