
وہ اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ کئی سالہ اقتدار کے باجود ترک قوم کی اکثریت کو عزیز ہیں اور اس ماہ کی 28 تاریخ کو صدارتی انتخابات میں ترک قوم جو فیصلہ کرے گی وہ بھی ہمارے سامنے ہو گا ۔
کچھ چیزیں واضح ہیں ، ایردوان اب نئے ترکیہ کا چہرہ اور شناخت ہیں ، جدید ترکیہ جو عام صنعت سے لے کر دفاعی صنعت تک اور یورپ کے محض ایک ہمسائے کی حیثیت سے بلند ہو کر عالمی طاقتوں کے مابین ایک اہم فریق کی صورت میں سامنے آ چکا ہے اور قدرتی و مصنوعی معاشی مسائل کی موجودگی کے باجود کسی بھی طور پہ بین الاقوامی صف میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے ۔ ترکیہ اب جس جگہ کھڑا ہے ترک عوام سمجھتے ہیں کہ ایردوان کو ترکیہ کی نہیں بلکہ ترکیہ کو ایردوان کی ضرورت ہے ۔ بقول ترک اساتذہ ایردوان کے بغیر آزاد خارجہ پالیسی کا تصور کرنا بھی محال ہے۔
گو کہ ایک لمبا دور اقتدار نوجوان نسل کو حکومتی جماعت کی جانب خاطر خواہ قائل نہیں کر سکا مگر ترک قوم نظریاتی اختلافات کو پس پشت رکھتے ہوئے ترقی پسند ہیں اور اسکا اندازہ ہمیں آک پارٹی کے ممبر آف پارلیمنٹ کی تعداد دیکھ کر ہوتا ہے ۔
ایردوان سے ناخوش طبقات میں ایک بڑا طبقہ بیوروکریسی ہے اور سابق مراعات یافتہ طبقہ ہے ۔ اس کے مقابلے میں ایردوان کے پاس اسکے ہم نظریہ لوگوں کا ایک این جی او سیکٹر کا ایک ایسا جال موجود ہے جو ہر سطح اور طبقے کو کسی خاص حد تک متاثر کرنے اور معنی خیز معاشرتی رجحانات متعارف کروانے کی اہلیت و قابلیت رکھتا ہے ۔
اس کے مقابلے میں حزب اختلاف کے پاس کرنے واسطے کچھ بھی نہیں ہے سوائے پرانے ماضی کی یادداشتوں کو دوہرانے مجسمہ سازی اور ان پہ ناز کرنے کے ، ایردوان نے ترک قوم کو جس رجحان کی جانب متوجہ کیا ہے اس نے حیرت ناک تبدیلیوں اور کاردگی کو جنم دیا ہے ۔ اور اس ضمن میں ترکیہ کی ٹیکناجی کے میدان میں خودکفالت سر فہرست ہے ۔