turky-urdu-logo

امریکہ اور یورپ نے غریب ممالک کو جنگوں میں جھونک کر انہیں معاشی طور پر تباہ کر دیا:صدر ایردوان کا جنرل اسمبلی سے خطاب

صدر ایردوان نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے 78 ویں سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ، ویٹو پاور کے حامل 5 ممالک کی اجارہ داری کو مسترد کر دیا ۔ انہوں نے ایک بار پھر اپنے عزم اور نعرے کو دہرایا کہ دنیا پانچ سے بہت بڑی ہے، دوسری جنگ عظیم کے زمانے کی پالیسیاں آج کے دور میں کارگر نہیں ہو سکتیں
یہ 5 ممالک آج کے عالمی مسائل کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں ۔ روس یوکرین تنازع ، قبرص کے معاملات سلامتی کونسل کی ناکامی کی دلیل ہیں۔ سلامتی کونسل ایک جنگ کا میدان بن چکا ہے، سلامتی کونسل کے رکن ممالک جو باہمی دست و گریباں ہیں، وہ باقی دنیا کی سلامتی کی یقین دہانی کیسے دلا سکتے ہیں؟

صدر ایردوان نے کہا کہ پاکستان اور بھارت سمیت پورے جنوبی ایشیا میں قیامِ امن ، مسئلہِ کشمیر کے حل کے بغیر ممکن نہیں ۔ مسئلہِ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہیے اور اس میں فیصلہ کن حیثیت صرف کشمیری عوام کو حاصل ہونی چاہیے ۔

ان کا کہنا تھا کہ فلسطین میں امن نا صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پورے خطے میں امن کے لیے لازمی ہے۔ اس کے لیے فلسطینیوں کو ایک آزاد اور خود مختار مملکت دینا ضروری ہے، اور آزاد و خود مختار فلسطین سے مراد کوئی علامتی مملکت نہیں۔ بیت المقدس اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ہے اور اسے حرم کا درجہ حاصل ہے ۔ اس کی عزت و حرمت کا خیال کیے بغیر کوئی امن نہیں ہوگا۔

صدر ایردوان نے افغانستان کے حالات کی جانب بھی دنیا کی توجہ مرکوز کروائی۔ انہوں نے کہا کہ افغان عوام نصف صدی سے مشکلات میں ہیں۔ ان کا حق ہے کہ انہیں ایسی حکومت ملے، جس میں ملک کے تمام طبقوں کی متناسب نمائندگی ہو۔ اسی کے ذریعے افغانستان کی حکومت کو دنیا بھر میں قبولیت اور پذیرائی مل سکے گی۔

 

صدر ایردوان نے اس موقع پر دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے مرض پر بھی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حرمتِ قرآن پر حملے ایک مخصوص بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان حملوں کی حوصلہ افزائی بعض سیاسی رہنما کر رہے ہیں ، جن کو اندازہ نہیں کہ جس آگ سے وہ کھیل رہے ہیں، وہ ان کے اپنے ہاتھ بھی جلا سکتی ہے ۔ صدر ایردوان نے کہا نسل پرستی، اسلامو فوبیا اور زینو فوبیا کے امراض کے خلاف پوری دنیا کو متحد ہونا ہو گا۔

 

اپنے خطاب میں صدر ایردوان نے لیبیا سیلاب کی تباہ کاریوں کا بھی تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ہزاروں لیبیا کی بہنیں اور بھائی اس تباہی کی لپیٹ میں آئی ہیں۔ ہم انہیں اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور ہم نے ان کی امداد کے لیے تین بحری جہاز اور 3 طیارے روانہ کیے ہیں، ان کے علاوہ ہم نے 567 ریسکیو ماہرین بھی لیبیا بھیجے ہیں۔ ہم لیبیا کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ ہم لیبیا میں سیلاب اور مراکش میں زلزلے کی زد میں آنے والے اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔

صدر ایردوان نے خطے میں قیامِ امن کے لیے چند حل بھی پیش کیے ۔

دوسری جانب، ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جانا بھی خطے میں امن کے لیے ضروری ہے ۔

جبکہ وسطِ ایشیا میں امن کے لیے یہ ضروری ہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا میں امن کا قیام ہو، یہ پوری دنیا پر واضح ہونا چاہیے کہ کاراباخ ، آذربائیجان کا حصہ ہے۔

صدر ایردوان نے روہنگیا کے مسلمانوں اور یمن کی صورتحال کی جانب بھی دنیا کی توجہ مرکوز کروائی ۔

جبکہ صدر ایردوان کے خطاب کا ایک اور اہم موضوع ، خاندانی نظام تھا۔ صدر ایردوان نے کہا کہ خاندانی نظام ، انسانیت کی بقا کی ضمانت ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارا خاندانی نظام اس وقت خطرے میں ہے، چاروں طرف سے اس نظامِ فطرت اور خاندان پر حملہ کیا جا رہا ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے دوست آگے بڑھ اس خاندانی نظام کے تحفظ اور بقا کے لیے کردار ادا کریں۔

صدر ایردوان نے دہشت گردی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہم ان لوگوں کے دہرے چہروں سے تنگ آ چکے ہیں جو داعش اور اس جیسی دہشتگرد تنظیموں کے پیچھے چھپ کر اپنے گھناؤنے ارادوں کو پورا کرتے ہیں ۔ خطے میں موجود داعش اور دیگر مسلح گروہ بہت بڑا مسئلہ ہیں ۔
ترکیہ وہ ملک ہے جس نے دنیا میں بھوک جیسی مصیبت کو روکنے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ ہمارے بحیرہ اسود کے اناج راہداری منصوبے نے دنیا بھر میں 33 ملین ٹن اناج عالمی مارکیٹ تک پہنچا کر غذائی بحران کو کا خاتمہ کیا۔ 17 جولائی سے یہ اناج راہداری منصوبہ بند ہے، اور اس کا دوبارہ شروع ہونا بہت ضروری ہے
صدر ایردوان نے بتایا کہ ہم بیک وقت دہشت گردی، قدرتی آفات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مگر اس سب کے بیچ دنیا بھر میں بھوک کے مسئلے، ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسئلے اور قیامِ امن کے لیے سب سے موثر آواز بھی ہماری ہی ہے۔ ہمارا زیرو ویسٹ منصوبہ آج پوری دنیا قبول کر چکی ہے۔

صدر ایردوان نے واضح کیا کہ ترکیہ کی صدی کا آغاز ہو رہا ہے، اور ہمیں فخر ہے کہ اس برس اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا ایجنڈہ ترکیہ کے مقاصد سے ملتا جلتا ہے۔

Read Previous

نیو یارک میں صدر ایردوان کی جارجیا کے صدر سے ملاقات

Read Next

صدر ایردوان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے بعد استنبول روانہ

Leave a Reply