
مصری فوج کو ایک آزادانہ انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی جمہوری حکومت کا تختہ الٹے آج پورے سات برس بیت گئے لیکن فوج ابھی تک ملک میں جمہوریت کو بحال کرنے میں تیار نہیں ہے۔
3 جولائی 2013 کو اس وقت کے مصری فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتح السیسی نے منتخب وزیراعظم محمد مُرثی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ فوج نے قبضہ کرتے ہوئے جلد ہی ملک میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا لیکن سات سال گزرنے کے باوجود فوج انتخابات سے آنکھیں چُرائے بیٹھی ہے۔ اقتدار پر قبضہ کرتے ہی فوج کے اعلیٰ عہدیداروں نے واضح کر دیا تھا کہ مستقبل قریب میں انتخابات کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔
فوج کے قبضہ کرنے کے بعد جمہوریت پسند مظاہرین پر اس وقت کے آرمی چیف عبدالفتح السیسی کے حکم پر براہ راست فائرنگ کی گئی جس کے باعث کئی مظاہرین جاں بحق ہو گئے تھے۔ 2013 میں 14 اگست کو فوج نے قاہرہ کے ربع اسکوائر میں کئی مظاہرین کو گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق جدید مصر میں اب تک اس طرح کے وحشتناک واقعے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اس واقعے میں جو لوگ زندہ بچ گئے تھے فوج نے آرمی چیف عبدالفتح السیسی کے حکم پر انہیں گھروں سے اٹھا کر قید میں ڈال دیا اور ان پر بدترین تشدد کیا گیا۔ مصری فوج کی بربریت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مظاہرے میں شامل چھوٹے بچوں کو بھی قید و بند کی صعوبتیں دی گئیں۔
مصری فوج نے وزیراعظم محمد مُرثی کی سیاسی جماعت کے کارکنوں اور اخوان المسلمین کے کارکنوں کو بدترین تشد کا نشانہ بنایا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق عبدالفتح السیسی نے لاکھوں سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا اور انہیں عدالتوں میں پیش نہیں کیا۔
جیلوں سے رہائی کے بعد کئی سیاسی کارکنوں نے برطانیہ، ترکی، آسٹریلیا اور قطر میں سیاسی پناہ حاصل کی جس کے بعد وہ آج تک واپس مصر نہیں آ سکے۔
ان سات برسوں میں عبدالفتح السیسی نے اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط بنانے اور مصر کا صدر بننے کیلئے جعلی انتخابات کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں کیا۔ اپوزیشن کو ان تمام سرگرمیوں سے دور رکھا گیا۔ 2018 میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں السیسی کے مقابلے پر ایک جعلی امیدوار کو کھڑا کیا گیا جو آخری وقت میں الیکشن سے دستبردار ہو گیا اور عوام سے عبدالفتح السیسی کو ووٹ ڈالنے کا مطالبہ کیا۔ ان الیکشن میں السیسی کو 97 فیصد ووٹ ملے۔
مصر میں ابھی تک آزادی رائے پر پابندی ہے اور حکومت کے خلاف بیان بازی پر سیاسی شخصیات کو سخت سزائیں دی جا رہی ہیں۔ مصر کے ایک سیاسی تجزیہ کار تقدم الخطیب نے ٹی آر ٹی ورلڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عبدالفتح السیسی نے ان سات برسوں میں اپوزیشن کی آواز کو بالکل دبا دیا ہے۔ ملک اندرونی خلفشار اور سیاسی و انتظامی بحران کا شکار ہے۔ اس وقت متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب مصر کی آمر فوجی حکومت کو سپورٹ کر رہے ہیں اور انہوں نے مصر کے مرکزی بینک میں کئی ارب ڈالر جمع کرائے تاکہ مصر کو مالی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن اس کے باوجود السیسی مقامی طور پر اپنے آپ کو مضبوط نہیں بنا پائے ہیں۔