کورونا وائرس کی عالمی وبا کے تناظر میں مصری نوجوانوں نے ذہنی دباؤ کو دور کرنے کیلئے پتنگ بازی شروع کر دی تاہم سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ شوق مصر کی قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔
مصر کی پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی کے رکن خالد ابو طالب نے وزیراعظم کو خط لکھا ہے جس میں پتنگ بازی پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اپنے خط میں خالد ابو طالب نے کہا کہ پتنگ بازی ایک عام کھیل نہیں رہا کیونکہ جدید دور میں ان پتنگوں میں جاسوسی کیمرے نصب کر کے حساس تنصیبات کی تصاویر حاصل کی جا سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں پتنگ بچوں کیلئے محض ایک کھلونا تھی لیکن جدید دور میں یہ بچوں کی زندگی اور قومی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ بن گئیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر مصری پارلیمنٹیرین خالد ابو طالب پر تنقید کی جا رہی ہے۔ بعض صارفین کا کہنا ہے کہ وہ چھوٹی سے بات کا پہاڑ بنا رہے ہیں۔
طالب ابو خالد نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ میرا کام خطرے سے آگاہ کرنا تھا اور میں تنقید کو قبول کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کا تعلق صرف فوج یا پولیس سے نہیں ہے۔ خوراک، صحت، تعلیم، ماحولیات اور عوام کی زندگی بھی قومی سلامتی کے زمرے میں آتی ہے۔
شام کو سورج ڈھلتے ہی نوجوان اور بچے چھتوں پر چڑھ کر پتنگ بازی کرتے ہیں۔ حالیہ کچھ دنوں میں مصر میں پتنگ کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا پھوٹنے کے بعد دنیا سمیت مصر میں بھی نوجوان اور ہر عمر کے لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔ اپنے ذہنی دباؤ کو کم کرنے کیلئے لوگ شام میں کچھ کھیل کود میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ گرمیوں میں پتنگ بازی ایک عام اور مقبول کھیل ہے لیکن مصری پارلیمنٹ کے رکن خالد ابو طالب اسے قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز بند ہیں ایسے میں نوجوانوں کو کھیل کود کیلئے پتنگ بازی ایک بہتر کھیل سمجھ میں آیا جس میں سماجی دوری جیسی اہم احتیاطی تدابیر پر بھی عمل ممکن ہے۔ باقی کھیلوں میں سماجی دوری ممکن نہیں تھی جیسے فٹ بال وغیرہ۔
تاجروں کا بھی کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے لوگوں نے بچوں کے کھلونے خریدنے بند کر دیئے ہیں کیونکہ لوگ احتیاط کے طور پر بچوں کو کھلونے خرید کر نہیں دے رہے ہیں کہ اس سے وائرس کا پھیلاؤ بڑھ سکتا ہے۔
پتنگ بازی بڑھنے سے اس کی فروخت میں اضافے سے اب اس میں جدت بھی آتی جا رہی ہے۔ اب عام پتنگ کے ساتھ ساتھ مختلف ڈیزائنوں کی ڈیکوریٹڈ پتنگیں بھی مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہیں۔ اس وقت ایک عام پتنگ کی قیمت 30 مصری پاؤنڈ سے لے کر 500 مصری پاؤنڈ تک میں فروخت ہو رہی ہے۔
اس تمام کے باوجود خالد ابو طالب کہتے ہیں کہ پتنگوں میں چھوٹے کیمرے نصب کر کے حساس تنصیبات کی جاسوسی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک عوامی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے مستقبل کے خطرات سے آگاہ کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ترکی اور پاکستان میں بھی پتنگ بازی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ برطانیہ میں بھی اس پر کچھ قوانین لاگو کئے گئے ہیں۔ ان تمام ممالک نے آخر کسی وجہ سے ہی پتنگ بازی کی حوصلہ شکنی کی ہے