عالمی وباء اور سخت لاک ڈاون کسی بھی کاروبار کی کامیابی کے لیے موضوع صورتحال نہیں ہوتی۔ لیکن ویلز میں کچھ تاجروں کے لیے صورت حال کچھ مختلف ہے سفری پابندیاں اور ڈلیوری سلاٹس میں کمی اور سپر مارکیٹ میں داخلے کے لیے لگنے والی لمبی قطاروں نے لوگوں کو برسوں جدوجہد کرنے والے تاجروں کے طرف لوٹنے پر مجبور کر دیا جبکہ کچھ کاروبار محتاط انداز میں پر امید ہیں کہ لوگوں کی خریداری کے بدلتے ہوئے رجحان اچھی علامت ہے۔ بریکون بیکنز میں جارجیائین ورکر واٹرمل نے ٹلگارتھ مل میں اپنے کاروبار میں اضافہ دیکھا۔مارچ میں پابندیوں کے آغاز کے بعد اسے اپنا کیفے اور ویزیٹرز سینٹر بند کرنا پڑا جو کہ شروع میں نگرانوں کی راتوں کی نیند اڑانے کا سبب بنا جو نفع اور نقصان کے مابین ایک باریک لکیر تصور کرتے تھے۔ لیکن دوسرے کئی کاروباروں کی طرح بری قسمت کا سامنے کرنے کی بجائے اس نے اپنے کاروبار کی سیلز میں اضافہ دیکھا کیونکہ لوگوں نے فارغ اوقات میں وقت گزرنے کے لیے بینکنگ کرنا شروع کر دی۔
ملر سارہ اینڈریوز نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں ایک خوردو فروش کے پاس آنے والا آڈر ہر پروڈکٹ لائن میں سے 6 یا 10 اشیاء پر مشتعمل ہوتا تھا اور آڈر چار یا چھے ہفتے میں آتا تھا۔ لیکن اب وہی آڈر 40 یا 60 اشیاء پر مشتعمل ہوتا ہے اور ہر ایک یا دو ہفتے میں آڈر آ رہے ہیں۔مجھے نہیں لگتا ہم یہاں بیٹھ کر یہ سوچ رہے ہیں کہ کاش یہ لاک ڈاون جلدی ختم ہو جائے اور سب کچھ پہلے کہ طرح ہو جائے۔ اس کہانی سے مارک ووڈ مین بھی واقف ہے۔ مسٹر ووڈ مین ایک دودھ فروش ہے اور پچھلے بیس سالوں سے کارڈف میں گھروں میں دودھ پہنچاتا آ رہا ہے۔ چونکہ اس کا تجارتی کاروبار تقریبا راتو رات ختم ہو گیا تاہم اس نے گھریلو آڈرز میں اس قدر اضافے دیکھا کہ اسے کچھ آڈرز کی ڈلیوری سے انکار کرنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں لاتعداد کالز آتی ہیں۔ ایک دن میں سو یا ڈیڑھ سو کالز باز اوقات تو مجھے کالز اور ای میلز کا جواب دینے میں دن میں 14 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
بدلتے رجحان:
کچھ کاروباروں میں تیزی کے رجحان کے باوجود پرامید ترین کاروباری افراد بھی اس بات سے واقف ہیں کہ یہ غیر یقینی وقت ہے اور لوگوں کی عادات کو بدلنے میں چند ہفتوں سے زیادہ وقت لگتا ہے۔دفتر برائے قومی شماریات کی تحقیق کے مطابق ہائی اسٹریٹ ٹرینڈ میں واضح کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ لوگ آئن لائن شاپینگ کر رہے ہیں۔ وہ کاروبار جو لاک ڈاون کے دوران بھی کھلے رہے ہیں ان کے کسٹمر بیس میں نیا اضافے دیکھا گیا ہے جو کہ ورک فرام ہوم کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے ہوا ہے۔ برطانوی آزاد خوردہ فروشوں کی ایسوسی ایشن (بیرا) کے اینڈریو گڈ اکر کے مطابق یہ ایک ایسا رجحان ہے جو ہم کہاں اور کیسے خریداری کرتے ہیں کے ضمن میں اصول بک کو دوبارہ لکھ سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اب ہم مقامی طور پر تیار کردہ اشیاء اور مقامی کاروباروں کی قدردانی میں نیا اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ کوویڈ 19 کی وجہ سے بہت سے لوگ گھروں سے کام کر رہے ہیں جس نے ان کی خریداری کے رجحان میں تبدیلی پیدا کی ہے۔کیونکہ مقامی دکان پر جانا آسان ہے جو کہ سٹی سینٹر اور ٹاون سینٹر میں نہیں ہوتی جہاں ان کا ممکنہ آفس ہو۔
پرانا کاروبار، نئے طریقے:
بہت سارے کاروبار مالکان نے اپنی آمدنی کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے اپنے بنیادی کاروبار سے توجہ ہٹا دی ہے یا کام کرنے کے نئے طریقوں جسے کہ ہوم ڈلیوری میں کاروبار منتقل کر دیے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ کاروبار کے دوبارہ آغاز کے بعد یہ جدت کاروبار کرنے کے طریقے کو ایک نئی شکل دے گی۔ مس اینڈریوز نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب حالات کے مطابق ڈھل چکے ہیں۔ ہم نے ڈلیوری اور جمع کرنے جیسی چیزیں دیکھی ہیں ہو سکتا ہے آنے والے وقت میں ہم چیزوں کو اسی طرح جاری رکھیں۔
یہ ایک نظریہ ہے جس سے دوسرے شعبے بھی متفق ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ مقامی خوردو فروشوں نے نئی ٹیکنالوجی کو بہتر طریقے سے اپنایا ہے اور انہوں نے اپنی کمیونٹی کے لوگوں سے جڑے رہنے کے لیے مستحکم ڈیجیٹل فٹ پرینٹ حاصل کر لیا ہے۔ اس سے وہ مستقبل میں بھی مقابلہ کر سکیں گے۔ مسٹر گڈ اکر نے کہا جو کاروبار بدلتے ہوئے طرز عمل کو جلد اپنا لیتے ہیں ان کے زندہ رہنے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔