
تحریر: اسد عمران
ایک دو کے علاوہ تمام صوبوں اور دارالحکومت کابل پر بلا خون خرابے کے مکمل قبضے اور مخالفین کیلئے عام معافی کے بعد افغانستان پر طال بان بڑی آسانی سے بلاشرکت غیرے حکومت کر سکتے تھے مگر نظام حکومت کی تشکیل کیلئے طالبان نے وسیع البنیاد (inclusive) پلیٹ فارم بنانے کا اعلان کیا۔ موجودہ تناظر میں یہ ایک بہترین فیصلہ ہے جس کی بدولت اندرونی و بیرونی چیلنجز سے بڑی حد تک نمٹا جا سکتا ہے اور یہی طریقہ اسلامی شریعت کے مقاصد سے بھی ہم آہنگ ہے۔
مگر اس مقصد کے حصول میں کئ طرح کی رکاوٹیں حائل ہیں۔ مختلف قبائل، قومیتوں، سیاسی نظریات اور مذہبی فرقوں میں بٹے ہوئے 34 صوبوں پر مشتمل ملک کی نمائندہ حکومت تشکیل دینا یقیناً کوئی آسان کام نہیں۔ اور اس سلسلے میں بھی وسعت نظری، برداشت اور حکمت پر مبنی طالبان کا نیا بیانیہ اور مائنڈ سیٹ ہی کام آئےگا۔ مگر چند فروعی نوعیت کی ظاہری چیزوں پر اصرار سے بڑے مقاصد کی راہ میں مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
مثلاً قومی پرچم کے رنگ اور عبارت، امارت اسلامی ، امیر المومنین کے الفاظ استعمال کرنا کوئ شرعی تقاضا نہیں ہے۔ بلکہ اصل چیز شریعت کے مقاصد اور مدعا کو پورا کرنا ہے۔
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے گہر سے
لہذا اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے ان جیسے تمام فروعی اور اختلافی مسائل کو فی الحال متفقہ آئین اور دستور کی تیاری تک ملتوی کر دینا چاہیے۔ اور اختلاف کرنے والوں پر طاقت کا استعمال قطعاً نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ چند وائرل ہونے والی ویڈیوز میں سابقہ قومی پرچم لہرانے والوں پر فائرنگ اور گرفتاریوں جیسے واقعات ہیں , انکا سختی سے سدباب ہونا چاہیے۔ ایک دو افراد کی غلطی بھی میڈیا پر آ کر پوری جماعت کیلئے سخت بدنامی کا سبب بن جاتی ہے۔
لہذا ہر سطح پر اس قسم کی غلطیوں سے بچتے ہوئے اس وقت سارا فوکس ایک وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل ، آزاد عدلیہ کے قیام، قومی معاشی پالیسی اور گڈ گورننس کیلئے ہر شعبے میں خصوصاً امن و امان، تعلیم، صحت،زراعت، صنعت و تجارت وغیرہ میں اصلاحات پر ہونا چاہئے۔ تاکہ عوام کو ریلیف ملنا شروع ہو۔ اور عالمی اداروں اور ممالک کے ساتھ رابطے بحال ہوں۔ حالات مستحکم ہونے کے بعد ہی دستوری، قانونی اور شرعی مسائل اتفاق رائے سے طے کیے جائیں۔ جس طرح قیام پاکستان کے موقع پر قائد اعظم جیسی شخصیت کے باوجود فوراً آئین سازی یا جنرل الیکشن وغیرہ ممکن نہیں تھے۔ بلکہ شروع کا وقت استحکام کے حصول کیلئے صرف ہوا مگر ایک ہی سال بعد قائد اعظم کی وفات اور پھر لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد معاملات اور ہی طرف چل نکلے۔ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں پہلے آئین کی تشکیل میں نو سال لگ گئے اور وہ بھی کچھ وقت کے بعد معطل کر دیا گیا۔
پھر کہیں 1974 میں جاکر متفقہ آئین بنا۔ اور پہلا جنرل الیکشن 1970 میں جاکر ہوا۔ یقیناً یہ کوئی قابلِ تقلید مثال نہیں ہے مگر بتانا یہ مقصود ہے کہ ابتدائی دور میں پہلی ترجیح استحکام کا حصول ہونا چاہئے اور دیگر مسائل کو حکمت اور تدریج کے ساتھ حل کرنا چاہئے لہذا تمام سٹیک ہولڈرز کو اس سلسلے میں طالبان کو کچھ وقت دینا چاہیے اور انکے تمام اچھے اقدامات کو تسلیم اور اسکے لیے بھرپورتعاون کرنا چاہیے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بہت سے تلخ تجربات، نظریاتی اختلافات اور مختلف مفادات کی بناء پر بہت سے افغان شہری اور بیرونی عناصر طالبان کی یقین دہانیوں کو ماننے کیلئے تیار نہیں اور ان کے خلاف شدید پروپیگنڈا اور معاشی مشکلات کھڑی کرنے میں مصروف ہیں۔ خصوصاً انڈیا، امریکہ، کئ مغربی ممالک اور عالمی ادارے انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام نے طالبان کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔
امریکہ نے افغانستان کے نوارب ڈالر کے اثاثے منجمد کردیے تو آئ ایم ایف،ورلڈ بنک اور کئ یورپی ممالک نے امداد روک دی ہے۔ اندرون ملک بھی مخالف قوتیں عوام کو طالبان سے متنفر کرنے اور عوامی مزاحمت اور فساد برپا کرنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہےہیں مگر دوسری طرف خوش قسمتی سے چین، روس، ترکی ، پاکستان قطراوربحرین انکے ساتھ بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔
ایران، تاجکستان اور دیگر تمام پڑوسی ممالک کا رویہ بھی معاندانہ نہیں۔ نیوزی لینڈ نے فوری امداد کا اعلان کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ تمام دنیا کو اسکی تقلید کرنا چاہیے اور تعاون کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔ طالبان نے اشرف غنی، امراللہ صالح، احمد مسعود سمیت تمام مخالفین کیلئے عام معافی کا اعادہ کیا ہے۔ سابقہ بیوروکریٹس، فوج اور فضائیہ کے اہلکاروں کو ڈیوٹی پر واپس آ نے کی دعوت دی ہے۔ افغانستان میں موجود سیاسی قائدین کے گھروں میں جا کر ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ کئ بڑے دھڑے پاکستان میں طالبان سے مذاکرات کیلئے موجود ہیں۔
مگر ہر ایک کے اپنے اپنے تحفظات اور مقاصد ہیں۔ ادھر کابل ائیر پورٹ پر ہزاروں افغانی ملک چھوڑنے کیلئے جمع ہیں۔یہ لوگ بھی طالبان کے اعلانات پر یقین کرنے کو تیار نہیں اور انہیں خدشہ ہےکہ حالات سنبھلتے ہی طالبان کا وہی شدت پسند، سخت گیر روپ سامنے آ جائے گا۔ اور طالبان کی حکومت میں افغانستان صرف ایک ناکام ریاست ہی بن سکتا ہے۔
بحرحال دنیا بھر کے لوگوں کے خدشات اپنی جگہ، اگر طالبان اسلام اور شریعت کے درست تصور کو اپنا کر تمام معاملات کو طاقت کی بجائے حکمت سے ہینڈل کرنے کی پالیسی جاری رکھیں تو امکانات کا ایک وسیع سمندر موجود ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ طالبان نے تجربات سے سیکھ کر جو نیا بیانیہ اپنایا ہے اس پر زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے عمل کیا جائے اور فروعی معاملات میں بے جا سختی نہ کی جائے۔ کچھ عرصہ تک مسلسل اچھی پالیسیاں اپنانے سے یقیناً عوام اور عالمی برادری کا اعتماد بحال ہو گا۔ اور اسلامی حکومت کے طویل المیعاد مقاصد پورے ہو سکیں گے۔ سید مودودی رح نے اپنی وفات سے قبل 1978 میں جبکہ ضیاء الحق کی نام نہاد اسلامائزیشن کا آ غا ز ہو رہا تھا، ریڈیو پاکستان کے نمائندے کو انٹرویو دیتے وقت نفاذ شریعت کی ترتیب سے متعلق کیسی پر حکمت باتیں کیں :
ناصر قریشی:
جنابِ والا کہا یہ جاتا ہے کہ یہ قوم ڈنڈے کی غلام ہے۔ یہ ایک عام ضرب المثل ہے جو لوگوں کی زبانوں پر چڑھی ہوئی ہے۔ لیکن کیا اسلامی نظام بھی ڈنڈے کے زور سے قائم کیا جا سکے گا؟
مولانا مودودی:
” اسلامی قانون میں ڈنڈے کا بھی ایک مقام ہے مگر وہ وہ سب سے آخر میں آتا ہے۔ اسلام میں ترتیب کار یہ ہے کہ پہلے ذہنوں کی اصلاح کا کام تعلیم و تلقین کے ذریعہ سے کیا جائے تاکہ لوگوں کے خیالات تبدیل ہوں ۔ پھر لوگوں کے اندر اسلامی اخلاق پیدا کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر کام کیا جائے۔یہاں تک کہ محلے محلے بستی بستی اور کوچے کوچے میں ایسے لوگ تیار ہوجائیں جو بدکرداروں کو عوام کی مدد سے دبائیں اور اپنے اپنے علاقے کے باشندوں میں دین داری اور دیانت داری پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
اس طرح ملک کے اندر ایک ایسی رائے عام پیدا ہو جائے گی جو برائیوں کو سر نہ اٹھانے دے گی ۔کوئی شخص ایسی رائے عام کی موجودگی میں بگڑنا چاہے گا تو اس کے راستے میں بےشمار رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی اور جو شخص صحیح طرح زندگی اختیار کرےگا اس کو پورا معاشرہ مدد دینے والا ہو گا۔
اس کے ساتھ اسلام یہ بھی چاہتا ہے کے معاشرہ ایسا ہو جس کے لوگ ایک دوسرے کے ہمدرد اور غمگسار ہوں۔ ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آنے والے ہوں ۔ہر شخص انصاف کا حامی اور بے انصافی کا مخالف ہو۔ہر شخص اپنے اوپر پیٹ بھرنا حرام سمجھے اگر اس کو معلوم ہو کہ اس کا ہمسایہ بھوکا سو رہا ہے۔
پھر اسلام ایک ایسا معاشی نظام بھی قائم کرتا ہے جس میں سود حرام ہو، زکات فرض ہو،حرام خوری کے دروازے بند کر دیے جائیں۔رزق حلال کمانے کے لیے تمام مواقع لوگوں کے لیے کھول دیے جائیں اور کوئی آدمی اپنی ضروریات زندگی سے محروم نہ رہنے پائے۔ان تدابیر کے بعد ڈنڈے کا مقام آتا ہے ۔ایمان، اخلاق، تعلیم، انصاف، اصلاح معیشت اور ایک پاکیزہ رائے عامہ کے دباؤ سے بھی جو آدمی درست نہ ہوں تو وہ ڈنڈے ہی کا کا مستحق ہے اور ڈنڈا پھر اس پر ایسی بے رحمی کے ساتھ علی الاعلان چلایا جائے کہ ان تمام لوگوں کے دماغ کا آپریشن ہو جائے جو جرائم کے رجحانات رکھتے ہوں۔
پہلے اصلاح پھر سزا:
لوگ بڑا غضب کرتے ہیں کہ اسلام کے پروگرام کی ساری تفصیل چھوڑ کر صرف اس کی سخت سزائوں پر گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔اسلام سب سے پہلے عام لوگوں میں ایمان پیدا کرتا ہے۔پھر عوام کے اخلاق کو پاکیزہ بناتا ہے۔ پھر تمام تدابیر سے ایک ایسی مضبوط رائے عام تیار کرتا ہے جس میں بھلائیاں پھلیں پھولیں اور برائیاں پنپ نہ سکیں۔ پھرمعاشی،معاشرتی اور سیاسی نظام ،ایسا قائم کرتا ہے جس میں بدی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہوجائے ۔وہ ان تمام دروازوں کو بند کر دیتا ہے دین سے فواحش اور جرائم نشوونما پاتے ہیں۔اس کے بعد ڈنڈا وہ آخری چیز ہے جس سے ایک پاک معاشرے میں سر اٹھانے والی ناپاکی کا قلع قمع کیا جاتا ہے۔ اب اس سے بڑا ظالم اور کوں ہو سکتا ہے کے ایسے برحق نظام کو بدنامی کرنے کے لئے آخری چیز کو پہلی چیز قرار دیتا ہے اور بیچ کی سب چیزوں کو ایمان کی طرح نگل جاتا ہے۔”