بھارت اور چین کی سرحد پر حالیہ جھڑپ میں 20 بھارتی فوجیوں کے مارے جانے کے بعد چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ایک مہم زور و شور سے جاری ہے۔
گو کہ بھارتی حکومت کی طرف سے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی باقاعدہ سرکاری بیان سامنے نہیں آیا ہے کہ آیا اس مہم کو حکومتی پالیسی سمجھا جائے لیکن پُرجوش بھارتی عوام اور تاجر چین کی مصنوعات کے بائیکاٹ میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔
بھارتی شہر احمد آباد میں لوگوں نے اپنی بالکونیوں سے چین کے تیار کردہ ٹیلی ویژن سیٹس اٹھا کر گلی میں پھینک دیئے۔ دوسری طرف دارالحکومت نئی دہلی میں تاجر سڑکوں پر چینی مصنوعات کو نذر آتش کر رہے ہیں۔
بھارت کے ایک مرکزی وزیر نے چینی ریسٹورنٹس کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے اور لوگوں سے کہا ہے کہ وہ بھارتی ڈشز کو اپنے کھانوں کی فہرست میں شامل کریں۔ مختلف شہروں میں لوگ بڑے بڑے بِل بورڈز پر چین کے تیار کردہ موبائل سیٹس کے اشتہارات کو پھاڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف ایک ہجوم نے شمالی کوریا کے سربراہ کِم جونگ کی تصویر یہ سمجھ کر آگ لگا دی کہ یہ چین کے صدر شی جِن پِنگ ہیں۔
گو ابھی تک بھارتی حکومت نے چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کا سرکاری سطح پر اعلان نہیں کیا ہے لیکن بعض ریاستوں اور سرکاری کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ چینی کمپنیوں کو ٹھیکے نہ دیں۔ بھارتی ریلویز نے چینی کمپنی کے ساتھ 2016 میں ہونے والے معاہدے پر دستخط کی تقریب روک دی ہے۔ حکومت نے آن لائن پروڈکٹس فروخت کرنے والی کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی مصنوعات پر آج سے جس ملک کی پروڈکٹ ہے اس کا نام واضح طور پر ظاہر کریں۔
2018 سے چین اور بھارت کے درمیان ہونے والی دو طرفہ تجارت میں 15 فیصد تک کمی آ چکی ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس تجارت میں مزید کمی آئے گی کیونکہ حکومت نے چین کی مصنوعات پر اضافی ٹیکس اور اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹیز عائد کر دی ہیں۔
لیکن ماہرین زبانی کلامی جمع خرچ اور حقیقت کو ایک دوسرے کے برعکس قرار دے رہے ہیں۔ امریکہ کے بعد چین بھارت کا دوسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ بھارت چین سے کیمیکلز، گاڑیاں میں استعمال ہونے والے پُرزے، الیکٹرونکس اور ادویات درآمد کرتا ہے۔ یہ بھارت کی مجموعی امپورٹس کا 12 فیصد ہے۔ بھارت میں فروخت ہونے والی 70 فیصد ادویات کا خام مال چین سے آتا ہے۔ انڈین فارماسیوٹیکل الائنس کے صدر سُدھارشن جین نے کہا گو کہ بھارت نے اس شعبے میں خودکفالت کی پالیسی کا اعلان کیا ہے لیکن اس پر ابھی بہت وقت چاہیئے۔
بھارت میں اسمارٹ موبائل فون کے بڑھتے ہوئے رجحان میں چین کے تیار کردہ سستے موبائل فون کا ایک اپنا مارکیٹ شیئر ہے۔ الیکٹرونکس تیار کرنے والی کئی بھارتی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ چین کی مصنوعات کے بائیکاٹ سے صنعتیں چلانا مشکل ہو جائے گا کیونکہ بیشتر خام مال چین سے ہی درآمد کیا جا رہا ہے۔ ایئرکنڈیشنرز تیار کرنے والی بھارتی کمپنی بلیو اسٹار کے منیجنگ ڈائریکٹر بی تھیاگراجن کا کہنا ہے کہ تیار مصنوعات کی فروخت پر انہیں کوئی تشویش نہیں ہے لیکن ایئرکنڈیشن اور دیگر الیکٹرونکس آلات بنانے کیلئے تمام مال چین سے ہی منگوایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی سپلائی کیلئے طویل وقت درکار ہو گا کیونکہ اس کی ٹیکنالوجی کا حصول ابھی بھارتی کمپنیوں کیلئے ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف چین نے بڑے پیمانے پر بھارت کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ سب سے بڑی سرمایہ کاری ٹیکنالوجی سیکٹر میں ہے جہاں نئی بھارتی کمپنیوں نے چینی سرمایہ کاروں کے ساتھ معاہدے کئے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں چین کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم ایک وقتی اُبال ہے جو دھیرے دھیرے ختم ہو جائے گا۔