
وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے گندم کی سرکاری سطح پر خریداری کیلئے بینکوں سے اب تک 72 ارب روپے کے قرضے حاصل کئے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق بینکوں نے کموڈیٹی آپریشنز کیلئے اب تک 72 ارب روپے کے قرضے جاری کر دیئے ہیں۔
ایک ہفتے میں زر کے پھیلاؤ کے حوالے سے جاری اپنے اعداد و شمار میں اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ سرکاری اداروں نے یکم جولائی سے 12 جون تک بینکوں سے 103 ارب روپے کے قرضے لے لئے ہیں۔
نجی شعبے کی طرف سے قرضوں کے حصول میں غیر معمولی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے کہا ہےکہ یکم جولائی سے 12 جون تک پرائیویٹ سیکٹر نے صرف 195 ارب روپے کے قرضے لئے ہیں۔ ایک سال پہلے اسی مدت میں نجی شعبے نے بینکوں سے 607 ارب روپے کے قرضے لئے تھے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن اور معاشی کساد بازاری کے باعث نجی شعبہ کے قرض لینے کی صلاحیت انتہائی کمزور ہو گئی ہے۔ بڑی اور چھوٹی صنعتیں بند ہونے کی وجہ سے نجی شعبہ بینک سے قرض نہیں لے رہا ہے۔ برآمدی شعبہ بھی چونکہ اس وقت بحران کا شکار ہے اس لئے بینکوں سے قرضوں کے حصول میں غیر معمولی کمی آئی ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ تاجروں کا رجحان روایتی سودی بینکاری کے بجائے اسلامک فنانسنگ کی طرف بڑھا ہے۔ یکم جولائی سے 12 جون تک نجی شعبے نے بینکوں کی اسلامک برانچز سے 144 ارب روپے کے قرضے لئے۔ روایتی سودی بینکاری سے صرف 14 ارب 58 کروڑ روپے کے قرضے لئے گئے۔ مکمل طور پر اسلامی بینکاری فراہم کرنے والے بینکوں نے اس مدت میں 36 ارب روپے کے قرضے جاری کئے۔
اگر گذشتہ سال سے موازنہ کیا جائے تو یکم جولائی 2018 سے 14 جون 2019 تک پرائیویٹ سیکٹر نے 105 ارب روپے کے بلاسودی قرضے حاصل کئے تھے۔
اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ ایک سال میں زر کے پھیلاؤ یعنی
Money supply
میں 963 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جس میں سب سے بڑا اضافہ زیر گردش نوٹوں کی مالیت میں 543 ارب روپے کا اضافہ ہے۔ یعنی ایک سال میں حکومت نے 543 ارب روپے کے نئے کرنسی نوٹ چھاپے ہیں۔
ایک اچھی بات یہ ہے کہ ملک میں ڈالر کی آمد بڑھنے سے بینکوں اور اسٹیٹ بینک کے غیر ملکی اثاثے یعنی
Net foreign assets
میں 641 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ سال اسی مدت میں ان اثاثوں کی مالیت میں 1100 ارب روپے کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔ سب سے بڑا فائدہ اسٹیٹ بینک کو ہوا جس کے غیر ملکی اثاثوں کی مالیت 593 ارب روپے بڑھ گئی جبکہ بینکوں کے غیر ملکی اثاثے 48 ارب روپے بڑھ گئے۔