
تحریر : عامر علی
جمہوری ترکیہ میں آئے ہوئے مجھے تقریباً ایک برس سے زیادہ ہوگیا تھا اور اب میں کسی حد تک ٹھوٹی پھوٹی ہوئی ترک زبان بھی بولنے اور سمجھنے لگا تھا۔ 2013ء کے آواخر میں جب میں ترکیہ میں آیا تو پہلا پورا سال ترکیہ زبان کی تعلیم حاصل کی۔ ترکیہ زبان سکھانے والے مراکز/ اداروں کو مقامی زبان میں "ٹومر” (ترکیہ زبان سکھانے کا مرکز) کہا جاتا ہے۔ ٹومر میں ہمارا وقت بہت مصروفیت میں گزرتا تھا۔ ہفتہ میں پانچ دن (ہفتہ اور اتوار کے علاوہ) لمبی کلاسز ہوتیں تھیں۔ اور پھر ہر روز پڑھنے اور لکھنے کے لیے کام دیا جاتا تھا۔ جس کو میں اگلے دن کلاس کے وقت تک بڑھی مشکل سے مکمل کر پاتا تھا۔ کبھی کبھی تو یہ ہوم ورک اس قدر زیادہ ہوتا تھا کہ میں اپنے کمرہ میں مقیم ترک دوستوں سے بھی مدد لیتا تھا۔ اس پورے سال کے دوران میں محض ایک بار قونیہ شہر سے باہر کیپادوکیا جا سکا تھا۔ وہ بھی ٹومر ہی کے ساتھ ان اساتذہ کی نگرانی میں گیا تھا۔
ایک سال کا مصروف ترین وقت گزارنے کے بعد جب میں یونیورسٹی میں گیا تو وہ ہفتہ میں محض پیر کے دن کلاس ہوتی تھی۔ اور ہوم ورک بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتا تھا۔ ترکیہ میں بہت سی این-جی-اوز اور تنظیمیں طلباء کے لیے ہفتہ کے اختتام پر مختلف کورسزز کا اہتمام کرتیں ہیں۔ جن میں بعض تو درس و تدریس اور علمی کورسز ہوتے ہیں جبکہ بعض مختلف صنعتیں، میوزک اور دست کاری وغیرہ کے حوالہ سے ہوتے ہیں۔ میں بھی فارغ رہنے سے تنگ ہو کر ہفتہ کے اختتام پر ایک "الہام” نامی تنظیم کے ہفتہ کے اختتام طلباء کے لیے منعقد کیے گئے پروگرام اور اسباق میں جانا شروع کر دیا تھا۔ اس میں جہاں ایک طرف تو ترکیہ طلباء و اساتذہ سے میری کافی دوستی اور شناسی ہوگئی تھی تو دوسری طرف ترک تاریخ اورتہذیب و ثقافت کے متعلق بھی کافی معلومات مل گئیں تھیں۔ ہم ہفتہ کے اختتام پر صبح 9 بجے ان کلاسوں میں جاتے 3 گھنٹے کی کلاس کے بعد شام تک کسی قہوہ خانہ پر سبھی کلاس فیلوز بیٹھے رہتے تھے۔ چائے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ہر موضوع پر خوب بحثیں ہوتیں تھیں۔
اپریل میں اس تنظیم کی طرف سے ایک سیاحتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جس کو دو گروپوں میں ” مشرقی” اور "مغربی” سمتوں میں سیاحت کروانے کا اعلان کیا گیا۔ البتہ طلباء کو اختیار تھا کہ وہ مشرقی علاقوں کی سیاحت کرنا چاہتے ہیں یا پھر مغربی علاقوں کی۔ چونکہ اخباروں میں اکثر مشرقی علاقوں میں لڑائیوں کے متعلق پڑھتا رہتا تھا ۔ اور ساتھ ہی ساتھ جس کمرے میں رہائش پذیر تھا ان میں بھی دو گروپ بن چکے تھے۔ ترک اور کرد ۔ وہ دوست ہمیشہ آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ میرے لیے سب سے مشکل مرحلہ تب آتا تھا جب مجھے ان وسطی اناطولیہ علاقہ میں ایک تاریخی علاقہ ہے جو ترکیہ کے صوبوں نو شہر، قیصری، آق سرائے اور نیغدے میں پھیلا ہوا ہے۔ جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں کبھی پریوں کا مسکن ہوا کرتا تھا۔ ٹوررازم کے حوالہ سے دنیا کے مشہور ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
میں سے کسی ایک گروپ کا طرف دار ہونا بتانا ہوتا تھا۔ میں اکثر اس کے جواب میں غیر جانب دار یا پھر دونوں اطراف کا جانب دار ہونے کا اعلان کر دیتا تھا۔ لیکن جب میری ترک زبان مزید بہتر ہوئی تو ہر گروپ نے مجھ سے واضح طرف دار ہونے کا مطالبہ کرنے لگے۔ جس کو میں ہمیشہ مسکرا کر ڈال دیتا تھا۔ غالباً وہ ان دوستوں کا بھی پہلا سال تھا جب وہ بھی ایک دوسرے کو قریب سے جاننے لگے تو ان کی باہمی مخاصمت دوستی میں تو تبدیل نہ ہو سکی البتہ اب دشمنی بھی نہ رہی تھی۔ جس وقت میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں اس وقت جو تب ترکوں کی حمایت کرتے تھے وہ اب ترک اکثریتی علاقوں میں مقیم ہیں اور دوسری جانب کا رویہ بھی ایسا ہی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی مخاصمت کی اصل وجہ حقائق سے نا آشنائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان دونوں گروپوں نے ایک ساتھ تھوڑا سا وقت گزارا تو بہت سے شکوک و شہبات از خود رفع ہو گئے۔ ہمارے حکمران بھی چاروں صوبوں کے طلباء کو ایک دوسرے صوبہ جات میں بجھیں تو میرا خیال ہے ساتھ رہنے سے بہت سی غلطیاں جو لوگوں نے پھیلائی ہوتیں ہیں دور ہو سکتیں ہیں۔
میں نے مشرقی علاقوں میں سیاحت کے لیے جانے والے گروپ میں اپنا نام لکھوایا۔ یوں 24 اپریل 2015ء کی رات کے آخری پہر لگ بھگ 2 بجے ہم شانلی عرفہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ قونیہ شہر سے یہ مسافت کم و بیش 10 گھنٹے کی تھی۔ راستہ میں گاڑی نماز فجر کے لیے رکی اور پھر اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہی۔ گاڑی میں ہی ناشتہ کے طور پر جوس اور سینڈ وچ جیسے فاسٹ فوڈ شرکاء کو دیے گئے۔ اساتذہ، منتظمین کو ملا کر کم و بیش 150 افراد پر مشتمل ہمارا قافلہ کہ جن میں اکثریت لڑکیوں کی تھی۔ جب ہمارا گروپ بسوں کے ذریعے عرفہ میں داخل ہوا تو سورج خاصا گرم ہو رہا تھا۔دھوپ ابھی نکل رہی تھی البتہ گرمی کی حرارت محسوس ہونے لگی تھی۔
شانلی عرفہ کا جغرافیہ:
شانلی عرفہ کہ جس کو مختصراً عرفہ کہا جاتا ہے۔ترکیہ کے جنوب مشرق میں واقع یہ شہر آبادی کے لحاظ سے ترکیہ کا 9واں بڑا شہر ہے۔ اس کے مشرق میں صوبہ ماردین، مغرب میں غازی عینتایب، شمال میں آدیامان، شمال مشرق میں دیار بکر جبکہ جنوب میں ملکِ شام واقع ہے۔ترکوں کی جنگ آزادی میں عرفہ سے منتخب اسمبلی کے ممبر عثمان دوان اور ان کے 17 دوستوں کی بہادری کی بنا پر اس شہر کا نام تبدیل کر کے عرفہ کی بجائے شانلی عرفہ (شان والا عرفہ) رکھ دیا گیا۔ عرفہ کو ابراہیم پیغمبر اور ایوب علیہ السلام کا پیدائشی شہر بھی بتایا جاتا ہے۔سب سے پہلے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور حکومت (634-644ء) میں عرب مسلمانوں نے اس کو فتح کیا ۔ امویوں اور عباسیوں کے زمانہ میں رومیوں اور بازنطینیوں سے اس کے حصول کے لیے لڑائیاں ہوتیں رہیں۔ عباسیوں کے کمزور ہونے پر بازنطینی اس کے حاکم بن گئے۔ 1094ء میں بازنطیوں کے عرفہ کا خاتمہ ہوا عرفہ اب ترک سلجوق کا تھا۔ صلیبی جنگوں کے زمانہ (1096-1272ء) میں انتہائی اہم گزرگاہ ہونے کی وجہ سے پھر سے یہ صلیبی حکمرانوں کے قبضہ میں چلا گیا۔ لیکن جلد ہی سلطان صلاح الدین ایوبی نے واپس اس کو مملکت اسلامیہ میں شامل کر لیا۔ ایوبیوں کے زوال کے بعد ایران کے صفوی اس کے حاکم بن گئے۔ 1516ء میں نویں عثمانی بادشاہ یاوج سلطان سلیم (1512 -1520ء)نے صفیوں سے چھین لیا۔ 1991ء میں جب مغربی اتحادی افواج نے اناطولیہ پر قبضہ کرنے کے بعد بندر بانٹ کی تو پہلے اس پر انگریزوں جبکہ بعد میں فرانسیسیوں نے قبضہ کر لیا۔ 11 اپریل 1920 کے دن قابضین سے یہ علاقہ واپس لے لیا گیا۔ 2012ء میں اس کو ایک صوبہ کا درجہ دے دیا گیا۔
عرفہ میں جب ہم داخل ہو ئے دن کے تقریباً بارہ بج رہے تھے اور سورج اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ اپنی خاتون رہبر کی رہنمائی میں ہم سب سے پہلے ہم "خلفتی”نامی جگہ میں گئے۔ یہ ایک جھیل ہے جس کے دو اطراف پہاڑ ہیں جن پر گھر بنے ہوئے تھے۔ اگرچہ موسم گرم تھا لیکن جھیل میں کشتی پر چلتے ہوئے ہوا کی خنکی محسوس ہونے لگی تو ہر کسی نے جیکٹیں پہن لیں۔ جھیل جو کہ دو پہاڑوں کے درمیان ہے کے کنارے پر گھر انتہائی مضبوطی اور مہارت سے تعمیر کیے گئے تھے۔ ایک مسجد جس کے چاروں طرف پانی تھا لیکن حیرت کی بات تھی کہ اس کے اندر پانی نہیں تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے کی کشتی سواری کے بعد ہم جھیل کے دوسرے کنارے اتر گئے۔ جہاں پر انتہائی خوبصورت طریقے سے رکھے گئے برتنوں میں ہمیں چائے اور کھانے کھلایا گیا۔
بالخلی گل
کھانے کے بعد ہماری اگلی منزل "مقدس مچھلیوں والی جھیل” تھی۔ جس کو ترکیہ زبان میں بالخلی گل کہتے ہیں۔ ہم اپنی خاتون رہبر کی رہنمائی میں وہاں پہنچ گئے جو ہمیں راستوں کے متعلق مختلف معلومات دے رہیں تھیں۔ اگرچہ یہ شہر کا مرکز تھا لیکن اس کے باوجود بعض جگہوں پر سٹرکیں ناہموار اور ٹوٹی پھوٹی ہوئیں تھیں۔ جبکہ بعض جگہ پر اچھی حالت میں موجود تھیں۔ پورے ترکیہ سے مختلف قسم کے قافلہ اس مقدس جھیل کو دیکھنے کے لیے آرہے تھے۔ اس جگہ کے اردگرد مختلف قسم کی چھوٹی بڑی دکانیں بھی تھیں جہاں پر سیاح اپنی پسندیدہ چیزیں خرید رہے تھے۔ اگرچہ ترکیہ میں غیر ملکی سیاحوں کا ہجوم لگا رہتا ہے لیکن مجھے ان علاقوں میں ہمارے گروپ میں موجود غیر ملکیوں کی بجائے کوئی غیر ملکی نظرنہیں آرہا تھا۔ شاید اس کی وجہ ان علاقوں میں موجود سیاسی و سکیورٹی کے حالات ہوں۔جو اتنے اچھے نہیں تھے جتنے کہ ٹورازم کے لیے ہونے چاہیں۔
بالخلی گل(مچھلیوں والی جھیل) کے قریب ہی ایک مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد ہماری خاتون گائیڈ نے اس جھیل کے متعلق بتانا شروع کیا۔ ان کے بقول جہاں پر آج یہ جھیل ہے ٹھیک اسی جگہ پر فرعون نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کے لیے آگ کا آلائو روشن کروایا تھا۔ سامنے والی پہاڑ کی چوٹی پر منجیق (قدیم زمانہ کی قلعہ شکن مشین جو لکڑی کے ٹینک کی طرح ہوتی تھی اور اس سے قلعہ کی دیواروں پر پتھر مارے جاتے تھے ) نصب کر کے پیغمبر کو یہاں پھیکنا گیا۔ ہماری رہبر نے سامنے والی پہاڑی کی چوٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ لیکن خدا کے حکم سے آگ نے ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کی بجائے انہیں آرام پہنچایا۔ (قرآن میں ہے "ہم نے فرما دیا اے آگ! تو ٹھنڈی پڑ جا اور ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے سلامتی (اور آرام کی چیز) بن جا۔ ” سورہ انبیاء 21/69) یہاں پر دو جھیلیں (خلیل الرحمن اور زلیخا) ہیں۔جہاں پر ابراہیم علیہ السلام گرے تھے اس جگہ کو ان کے نام سے منسوب کرتے ہوئے خلیل الرحمن جھیل کا نام دیا جانے لگا۔ جب کہ ساتھ ہی دوسرے جھیل کے بارے میں یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ نمردو جس کے حکم سے ابراہیم پیغمبر کو آگ میں پھینکا گیا تھا ان کی زلیخا نامی بیٹی کو بھی اسی طرح آگ میں پھینکا گیا تھا اس جگہ کا نام "آئینہ زلیخا” رکھا گیا ہے۔
اس جھیل میں بہت سے رنگوں کی چھوٹی بڑی مچھلیاں تھیں۔ لوگ ان کو عقیدت کے ساتھ روٹی اور خوراک ڈال رہے تھے۔ میں نے بھی وہاں ایک خاتون سے تھوڑی سی روٹی لی اس جھیل میں مچھلیوں کو ڈال دی۔ وہیں کھڑے کھڑے دعا کی ۔ اب اس جھیل کے ساتھ ایک خوبصورت پارک بھی ہے جس میں لوگ تصاویر کھینچوا رپے تھے اور پکنک منا رہے تھے۔ میں نے اس جھیل کی دیواروں پر بیٹھ کر کچھ تصاویر بنائیں اور کھانے کے لیے چلے گئے۔
عرفہ میں درجہ حرارت خاصا گرم رہتا ہے کبھی کبھی تو درجہ 50 سینٹی درجہ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ اس دن بھی خاصی گرمی تھی۔ ہمارے سارے گروپ کے کھانے کا انتظام اسی جھیل کی سامنے والی سڑک کی دوسری جانب دو منزلہ ریسٹورنٹ میں کیا گیا تھا۔ عرفہ کے کھانوں میں چی کوفتے (یہ نمک مرچ کے بغیر مصالحہ لگے ہوئے پتوں کا مجموعہ عجیب سا ذائقہ رکھنے والا کوفتے ہوتے ہیں جن کو میں کوشش کے باوجود پسند نہیں کر پایا۔ البتہ ترک لوگ اس کو بہت پسند کرتے ہیں۔) عرفہ کے کباب بہت ہی لذیذ تھے۔ ان میں استعمال کی گئی مقامی مرچ (جس کو یہ لوگ ایسوت کہتے ہیں )اور مصالحہ جات تو لاجواب تھے۔ میں نے یہاں پر لذیذ کھانے کے ساتھ مکمل طور پر انصاف کیا ۔
حضرت ایوب علیہ السلام کا مکان:
اس کے بعد اب ہماری اگلی منزل "حضرت ایوب علیہ السلام کا مکان” تھی۔ جس جگہ ایوبؑ نے اپنی بیماری کے دن گزارے تھے ہم وہاں گئے۔ یہ زیر زمین ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں ان کی قبر مبارک تھی۔اس کمرہ میں ہی ان کے لیٹنے کی جگہ قبر کی ماند جس کی چھت نہیں تھی۔ چھوٹی اور انتہائی تنگ جگہ جس میں ایک کمزور آدمی انتہائی مشکل سے لیٹ سکتا ہے۔ یہ تہہ خانہ کافی ٹھنڈا تھا۔ میں نے پیغمبر کے قدموں کی جانب کھڑے ہوکر کچھ قرآنی آیات کی تلاوت کی اور پھر دعا مانگ کر باہر نکل آیا۔ یہ ایک کھلا اور کافی پرانا خالی میدان ہے جس کو چاروں اطراف اونچی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے۔ میدان کے اندر دو چار اور بھی چھوٹے چھوٹے کمرے تھے جو خاصا بوسید ہ ہو چکے ہیں۔ دروازے سے داخل ہوتے وقت بائیں جانب ایک پرانا کنواں بھی تھا۔ جس کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اسی کنویں سے یعقوب علیہ السلا اپنی بیماری کے دوران پانی استعمال کرتے تھے ۔ اب کنواں تو اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جس کو دیکھا بھی جا سکتا ہے۔ لیکن اب وہاں سے پانی نہیں نکالا جا سکتا۔ کیونکہ ترک حکومت نے اس کے اوپر سریوں کی چھت بنا دی جس سے آپ کنویں کو دیکھ تو سکتے ہیں لیکن وہاں سے پانی نہیں نکال سکتے۔ اب وہاں جدید موٹر پمپ لگا کر پائپوں کے ذریعے پانی تھوڑی دور بنی ٹینکی میں جمع کیا جا رہا تھا۔ ٹینکی کے نیچے چھوٹی سی دیوار بنی ہوئی ہے جس میں چار نل لگے ہوئے تھے۔ ہر کوئی وہاں سے پانی پی رہا تھا ۔ دوسرے شہروں سے آئے ہوئے لوگ وہاں سے پانی کی بوتلیں بھر کر اپنے گھروں کو بطور عقیدت لے کر جارہے تھے۔ میں نے بھی وہاں سے پانی پیا اور اپنی اگلی منزل” قصبہ حران ” کی طرف جانے کی تیاری کی۔ حران ترکیہ کا بالکل سرحدی گائوں ہے جو شام کی سرحد کے ساتھ ملحق ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ عرب النسل سے تعلق رکھنے والے تھے جو کہ ترک جمہوری کے شہری ہیں۔ سریانی زبان کا یہ لفظ حران کہ جس کا معنی "سیاحت یا پھر انتہائی گرم” کےہیں۔ بحیرہ روم اور دریائے دجلہ کے درمیان ہونے کی وجہ سے یہ شہر تجارتی مرکز تھا۔ مقامی عربوں کا یہ کہنا ہے کہ قرآن کریم میں جس قوم نوح کا ذکر کیا گیا ہے وہ اسی جگہ پر رہتی تھی۔
قصبہ حران:
اسلام کے سہنری دور میں یہ علاقہ علم و سائنس کا مرکز تھا۔اور یہاں کی یونیورسٹی سارے عالم اسلام میں معروف تھی جس نے اسلام کو بڑے علماء اور سائنسدان دیے۔ مشہور مسلم سائنسدان، ماہر فلکیات و ریاضی جابر بن سنان البتانی (858-929ء) اور مشہور عالم و مفکر شیخ ابن تیمیہ (1262-1328ء) کا تعلق بھی اسی جگہ سے ہے۔ یورپ سے شام آنے والے راستے پر ہونے کی وجہ سے صلیبی جنگوں کے زمانہ میں یہ شہر مکمل طور پر ویران ہو گیا تھا لیکن بعد میں زنگی سلطنت (12 اور 13 صدی عیسوی میں موصل، شام، حلب، جزرے وغیرہ علاقوں میں قائم تھی) اور ایوبی سلطنت (1171-1252ء)کے زمانہ میں پھر اپنی پرانی حالت میں واپس ہو گیا۔ یہاں کے مقامی لوگوں سے بات کرنے اور ان کی حرکات و سکنات کو دیکھ کر ان کے بدوی عرب ہونے میں کوئ شک کی گنجائش نہ تھی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو سہ پہر کا وقت ہو رہا تھا اور گرمی کی شدت میں خاصی کمی آچکی تھی۔ اب ہماری رہبری کے فرائض ایک مقامی عرب نوجوان دے رہا تھا۔ جس کو ترک زبان پر اتنا ہی عبور تھا جتنا کہ کسی جمہوری ترکیہ کے شہری کو ہونا چاہیے۔ اس نے بتایا کہ ہم لوگ گھر میں عربی زبان بولتے ہیں البتہ سکول وغیرہ میں ترک زبان لکھنا ، پڑھنا اور بولنا سیکھتے ہیں۔
ہمارے قافلہ کو سب سے پہلے تو ابتدائی اسلامی دور کی مہشور یونیورسٹی "حران ” لے جایا گیا۔ یہ قلعہ نما ایک بڑھی وسیع عمارت تھی۔ جس کی سبھی دیواریں اور کمرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے تھے۔ محض دروازے کی ایک دیوار اپنی اصلی حالت میں کسی حد تک باقی تھی۔ باقی ساری عمارت اب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہے۔ لیکن ان کھنڈرات کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگانے میں قطعاً مشکل پیش نہیں آرہی تھی کہ کسی وقت میں یہاں پر طلباء کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جن کی رہائش کا بندوبست بھی اسی (مدرسہ)یونیورسٹی کے اندر ہی تھا۔ سننے میں آرہا ہے کہ ترک حکومت اب یہاں حران نامی سے ہی نئی یونیورسٹی تعمیر کر رہی ہے جس کے بعض کمپیس میں تعلیم کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے۔
اس کے بعد ہم ساتھ والے گائوں میں گئے۔ یہاں کی سب سے دلچسپ اور تاریخی بات یہاں کے پرانے مکانات تھے جو لگ بھگ 3 ہزار سال قبل تعمیر کیے گئے۔ ان کمروں کی چھتیں مینار کی طرح ہیں البتہ زیادہ تر عمارتیں انسان کے قد سے تھوڑی سی بلند ہیں۔ ایک ساتھ بنائے گئے کمروں کا محض ایک دروازہ ہوتاہے ۔ البتہ یہ کمرے اندر سے انتہائی وسیع اور موسم کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ یہ گھر موسم گرما میں سر اور موسم سرما میں گرم رہتے ہیں۔ ان کو بناتے وقت یقیناً حیوانات کی ضروریات کو بھی سامنے رکھ کر بنایا گیا ہو گا۔ جس دن ہم وہاں گئے تو مقامی عورتیں مصالحہ جات، رنگ برنگ کے کپڑے جو زیادہ تر خواتین کے لیے تھے اور دوپٹے وغیرہ فروخت کر رہی تھیں۔ اگرچہ یہ چیزیں مجھے بھی بہت بھلی لگیں لیکن میں خریدے بغیر ہی آگے بڑھ گیا۔ یہاں پہلی بار میں نے ترکیہ میں لوگوں کو گدھوں پر سواری کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ جس کی وجہ یہاں کی سڑکوں کا ٹوٹ پوٹ کا شکار ہونا ہے۔ اور دوسری وجہ شہر سے ہٹ کر ہونے کی وجہ سے یہاں محض سیاح اور کام کی غرض سے ہی لوگ آتے ہیں۔ اس کے بعد ہماری اگلی اور عرفہ میں آخری منزل حران کا مشہور اندونی قلعہ اور اس میں تعمیر کیا گیا مشہور "اموی محل ” تھا۔ یہ خوبصورت محل سلطنتِ بنوامیہ کے چودویں اور آخری اموی خلیفہ محمد بن مروان (744-750ء) نے 10 ملین درہم خرچ کر کے تعمیر کروایا تھا۔ محمد بن مروان کے دور حکومت میں دارالحکومت دمشق شہر کی بجائے حران بن گیا تھا۔ جس نے بنو امیہ کے ہمیشہ وفادار رہنے والے شامی عربوں کی ناراضگی کو خوب ہوا دی۔ جلتی پر تیل کا کام بنوعباس کے حامیوں نے کیا ۔ بنوامیہ (661-750ء) کی سلطنت کے تابوت میں آخری کیل 25 جنوری 750ء میں دریائے زاب کے کنارے ہوئی شکست نے کیا۔ جس کی ہار اور اس کے نتیجہ میں مروان بن محمد کے قتل نے مشرق میں بنوامیہ کی سلطنت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔
ہم جب وہاں پہنچے تو سورج بڑی تیزی سے قلعہ کی شکستہ دیواروں سے اوجھل ہو رہا تھا۔ ہر طرف ایک سنناٹا اور عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ رہبر ہمیں بتانے لگا کہ یہ آخری اموی خلیفہ مراوان بن محمد کا وہ محل ہے جس میں کبھی 50 ہال اور 150 سے زائد کمرے تھے اور اس وقت کی دنیا کی مضبوط ترین سلطنت کا بادشاہ اس محل میں رہتا تھا۔ لیکن جب مکین ہی نہ رہے تو بھلا مکان کیسے سلامت رہ سکتا تھا۔ چنانچہ یہ محل اب مکمل طور پر زمین بوس ہو چکا ہے ۔ اس محل کے حلب، رقہ، اسلانی، موصل ، بغداداور اناضولو نام سے چھ دورازے تھے ۔ جس میں آج محض حلب دورازے کی دیواریں کسی حد تک باقی تھیں۔ اس کے علاوہ یہ قلعہ نما محل مکمل طور پر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہمارے لیے اب اس میں تصویریں بنانے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ میں نے تھوڑی دیر ان کھنڈرات اور دیواروں میں چہل قدمی کی۔ دوسروں اقوام کے گلے کاٹنے ، ان کے مال و اسباب چھینے اور ان کی عورتوں کو باندھیں بنا کر بیچنے والوں کی یہ عبرت گاہ دیکھنے کے بعد اب مزید اس جگہ رکنا میرے بس میں نہیں تھا۔ لہذا جلدی جلدی قدم اٹھائے ، گاڑی میں بیٹھے اور ماردین شہر کی جانب گامزن ہوگئے۔ راستہ میں عرفہ شہر میں ہی نماز مغرب جامع مسجد صلاح الدین میں ادا کی۔ یہ انتہائی خوبصورت اور وسیع مسجد ہے جو عظیم مسلم سلطان فاتح بیت المدس سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام پر بنائی گئی ہے۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے سے قبل اپنے اس سفر نامہ کو ان کے ذکر سے مبارک کر لیا جائے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی:
الملک الناصر السلطان صلاح الدین یوسف 1138ء میں دریائے دجلہ کے کنارے تکریت میں کرد والدین کے ہاں پیدا ہوا۔ شام میں صلاح الدین کی جوانی اور ابتدائی تعلیم کے بارے میں بہت کم معلومات میسر ہیں۔ بدیہی طور پر اس کی ابتدائی دلچسپاں دینیاتی بحث پر مرکوز تھیں۔ وہ 1164ء میں اپنے چچا کے ہمراہ مصر کے محاذ پر پہلی بار لوگوں کے سامنے نظر آیا۔ جہاں اس کی زندگی کی دو شدید تمنائیں مصر میں شیعی اسلام کی جگہ سنی اسلام لانا اور فرانکوں کے خلاف مقدس جنگ لڑنا بن گئیں۔ صلاح الدین 1169ء میں وزیر بنا، 1171ء میں خطبہ جمعہ میں فاطمی خلیفہ کانام لینا بند کروایا اور اس کی جگہ عباسی خلیفہ المستضی کانام پڑھوانا شروع کیا۔ یہ عارضی تبدیلی اس قدر کم گڑبڑ کے ساتھ لاگو ہوئی کہ "دوبکروں نے سینگ تک نہ پھنسائے۔”
1174ء میں نورالدین زنگی کی وفات پر صلاح الدین نے مصر میں خود مختاری کا اعلان کردیا۔ اور اگلے سال کے مئی کے مہینہ میں عباسی خلیفہ نے مصر، المغرب، مغربی عربیہ، فلسطین اور وسطی شام پر حکومت کرنے کی سند عطاکی۔ دس سال بعد الموصل اور میسوپوٹامیا بھی صلاح الدین کی زیر حکومت آگیا۔ پہلے فرانکوں کو گھیرے میں لینے اور پھر انہیں مسلم شام-میسوپوٹامیا اور مصر کے دونوں پاٹوں کے درمیان کچلنے کا نورالدین کا خواب اس کے زیادرہ رفیع الشان جانشین کے دور میں حقیقت کا روپ دھار رہا تھا۔ شمالی شام میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران مسلم دشمنوں کے بھڑکانے پر حشیشین نے بھی کئی بار صلاح الدین کی جان لینے کی کوشش کیں۔
یکم جولائی 1187ء میں چھ دن کے قبضہ کے بعد ٹائبر ئیس کو قبضے میں لے لیا گیا۔ 3-4 جولائی حطین میں بروز جمعہ لڑائی ہوئی جو فرانک فوج کے لیے ڈروانا خواب ثابت ہوا۔ 20 ہزار فرنک فوجیوں نے پیاس اور گرمی میں مرنے کی بجائے یروشلم کے بادشاہ گید دا لوسیگان اور ریگنالڈ آف شاتیلون (جیسے بارہا امن معاہدہ توڑنے کے جرم میں صلاح الدین نے اپنے ہاتھ سے قتل کرنے کی قسم کھائی تھی۔ اسے ٹمپلرز اور ہاسپٹلرز کے ساتھ قتل کردیا گیا۔) جیسے متعدد ممتاز لوگوں سمیت قید کو قبول کر لیا۔
2 اکتوبر 1187ء میں ایک ہفتہ کے محاصرے کے بعد یروشلم نے صلاح الدین کے آگے ہتھیار پھینک دیے۔ اور اب مسجد اقصیٰ میں مسیسحی گھنٹے کی جگہ موذن کی اذان نے لی لی۔ 1189ء کا سال ختم ہونے سے قبل الکرک، الشوبک شقیف ارنون، کوکب، صفد سمیت تمام قلعوں نے صلاح الدین کی حاکمیت کو قبول کر لیا۔
یروشلم کے مقدس شہر کی شکست نے سارے یورپ کو جھنجوڑا۔ مغربی یورپ کے تین بڑے بادشاہ ،جرمنی کے بادشاہ فریڈرک باربروسہ، انگینڈ کا بادشاہ رچرڈ اول شیر دل، اور فرانس کا بادشاہ فلپ آگسٹس نے باہمی دشمنیاں بھلادیں اور صلیب کے سائے تلے جمع ہوگئے۔
جب یہ مغربی حکمران بیت المقدس کے لیے مصر کے ساحل پار کر رہے تھے اس وقت مشرق میں بکھرے صلیبی فوجیوں کو بھی نئی طاقت اور جوش میسر آیا ۔ بالخصوص شیردل رچرڈ کی آمد نے ان میں فتح کی نئی امید اجاگر کی۔ رچرڈ اپنی منجنیقوں میں استعمال کے لیے تین کشتیوں میں صقلیہ سے چقماق پتھر بھر کر لایا اور اس کی مددسے عکا ساحل کی تیرہ کشتیوں کو تباہ کیا۔ اس پتھر کا ایک ٹکڑا انوکھی چیز کے طور پر صلاح الدین کے سامنے پیش کیا گیا۔ صلاح الدین اور رچرڈ نے تحائف کا بھی تبادلہ کیا، لیکن کبھی ملے نہیں۔ صلاح الدین اور بچھڑے ہوئے سپاہیوں کے درمیان ابلاغ کے لیے پیغام رساں کبوتروں اور تیراکوں سے مدد لی گئی۔ ایک تیراک دوسری طرف جانے کی کوشش میں ڈوب گیا اور اس کی لاش ساحل پر آگئی تو اس کے پاس موجود سامان میں رقم اور خطوط اہل عکا نے لیے ۔ صلاح الدین کا ذاتی منشی اور سوانح نگار بہاءالدین بن شداد کہتا ہے ” ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنا کہ کسی شخص نے اپنی زندگی میں کوئی امانت وصول کی اور موت کے بعد اسے پہنچایا ہو۔”
صلیبی جنگوں میں سے ایک بڑی جنگ خیال کی جانے والی تییسری جنگ جس میں رچرڈ شیر دل نے عکا قلعہ کا کم و بیش دو سال تک محاصرہ کیے رکھا۔ (27 اگست 1189ء تا 12جولائی 1191ء) فرانکوں کو ایک بحری بیڑے اور محاصرے کے لیے جدید توپوں کی برتری حاصل تھی، مسلمانوں کو واحد برتری ان کا سپہ سالار صلاح الدین تھا۔ رچرڈ نے شہر کی فصیلوں سے نکالے گئے ہر پتھر پر خاطر خواہ انعام پیش کیا اور جنگجوں کے ساتھ ساتھ عورتوں نے بھی بہادری کے کارنامے دکھائے۔ اہل قلعہ نے 2،00،000 طلائی اشرفیوں کی ادائیگی اور مقدس صلیب کی بحالی پر ہتھیار ڈال دیے۔ مہینے کے اختتام پر جب رقم ادا نہ ہوئی تو رچرڈ نے 2700 قیدیوں کو تہ تیغ کرنے کا حکم دیا۔ یہ فعل فتحِ یروشلم کے بعد قیدیوں کے ساتھ صلاح الدین کے فراخانہ سلوک کے متضاد تھا۔ تب اس نے بھی ایک فدیہ مقرر کیا تھا اور کئی ہزار غریب افراد اپنی جان بخشی نہ کرواسکے۔ صلاح الدین نے اپنے بھائی کی درخواست پر ان غریب قیدیوں میں سے ایک ہزار کو رہا کیا، پیٹریارک کے کہنے پر کچھ مزید کو چھوڑا۔ پھر جب اس نے دیکھا کہ بھای اور پیٹریارک نے تو اپنی طرف سے خیرات کر دی ہے لیکن اب اس کی باری تھی، تو صلاح الدین نے باقی ماندہ متعدد قیدیوں کو فدیہ لیے بغیر رہا کردیا جن میں بہت سی عورتیں اور بچے شامل تھے۔
رومانٹک خیالات سے لبریز رچرڈ نے تجویز دی کہ اس کی بہن کی شادی صلاح الدین کے بھائی الملک العادل سے کردی جائے اور انہیں یروشلم جہیز میں تحفے میں دے کر مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ختم کردی جائے۔ پام سنڈے یا تاڑی اتوار کے روز (29 مئی 1192ء) اس نے العادل کے بیٹے الملک الکامل کو نائٹ بنانے کی باقاعدہ تقریب منعقد کی۔ انجام کار 2 نومبر 1192ء کو اس عمومی اصول پر امن قرار پایا کہ ساحل لاطینیوں کا ہے، اندورنی علاقہ مسلمانوں کا، اور یہ کہ مقدس شہر میں آنے والے زائرین پر ہاتھ نہیں اٹھایاجائے گا۔ اگلے سال 19فروری کو وہ دمشق میں بخار کی وجہ سے بیمار پڑگیا اور بارہ روز بعد 55 سال کی عمر میں فوت ہوا۔ اس کو اموی مسجد کے قریب دمشق میں ہی دفن کیا گیا۔
صلاح الدین محض ایک جنگجو اور سنی اسلام کے علمبردار سے بڑھ کر تھا۔ اس نے اہل علم کی سرپرستی کی، دینیتاتی مطالعات کی حوصلہ افزائی کی، پشتے بنوائے، نہریں کھدوائیں اور مدرسوں و مساجد کی بنیاد رکھی۔ وفات کے وقت اس کی اپنی دولت صرف 47 درہم اور ایک طلائی اشرفی تھی۔ یورپ میں اس نے انگلش گویوں کے علاوہ جدید ناول نگاروں کے تخیل کو تحریک دلائی۔ آج بھی اسے شجاعت کا کامل نمونہ خیال کیا جاتا ہے۔
(صلاح الدین ایوبی کے متعلق اتنا لکھا جا چکا ہے کہ جس کو محض اکٹھا کرنے کے لیے ہی کئی کتب خانہ درکار ہیں۔ میں نے صلاح الدین کے متعلق یہ مختصر تعارف مشہور لبانی نژاد امریکی پروفیسر فلپ حتیٰ کی تصنیف کردہ مشہور کتاب "تاریخ ملت عرب” سے خلاصہ لیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں تاریخ ملت عرب، فلپ کے حتی۔ ص 516-521، اردو ترجمہ یاسر جواد الفیصل ناشران، لاہور، 2015ء ) نماز کے بعد باہر نکلے تو سورج غروب ہوچکا تھا۔اب ہماری اگلی منزل شہر ماردین تھا۔ میں نماز پڑھنے کے بعد سوچتا رہا کہ آخر کب تک ہلال و صلیب اللہ کے نام پر ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہیں گے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک واعظ کی کتاب کا ایک جملہ کی آواز آنے لگی۔ "محبت کا ایک وقت اور عداوت کا ایک وقت ہے۔ جنگ کا ایک وقت اور صلح کا ایک وقت ہے۔ یہ دنیا گناہ، نفرت اور عداوت سے بھری ہے ۔ ” شاید بعض اوقات جنگیں ناگزیر ہو جاتیں ہیں۔ اب اتنا ہی سوچا تھا کہ ہماری رہبر کی زور دار آواز میرے کانوں میں گنجی اور میں تیزی سے گاڑی میں بیٹھ گیا۔ جو اب تیزی سے ماردین شہر کی طرف بڑھ رہی تھی۔