turky-urdu-logo

غزہ کا فوٹوگرافر مازن عبدالجواد جس نے کئی رشتہ دار کھودیے

رپورٹ:نورفاطمہ

آسمان سے میزائل اولوں اور بارش کی بوندوں کی مانند برس رہے تھے۔

ہمارے آگے کنواں اور پیچھے کھائی تھی، کوئی پناہ گاہ محفوظ باقی نہیں رہی تھی۔ایک آس، ایک امید، کہ شاید کوئی دفاعی فوج آئے اور ہمیں اس جہنم سے نکالے "۔یہ غزہ کے معروف فوٹوگرافر مازن عبدالجواد کی کہانی کی ایک جھلک ہے۔ غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت اور بربربیت نے جہاں سماجی پہیہ جام کردیا ہے ، وہیں میڈیا کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگی بھی کٹھن امتحان سے گزر رہی ہے۔ غزہ میں اب تک 150 سے زائد صحافی شہید ہوچکے ہیں۔

زندہ بچ جانے والے صحافی اور میڈیا ورکرز آئے روز موت کے قریب سے گزرتے ہیں۔ 29 سالہ غزہ کے معروف فوٹوگرافر مازن عبدالجوادکی زندگی جنت کی مانند تھی۔ وہ غزہ جانے سے پہلے قطر میں امن اور سکون کی زندگی بسرکر رہا تھا۔ مازن نے تعلقاتِ عامہ اور مارکیٹنگ میں ڈپلومہ کر رکھا ہے، تاہم پیشے کے لحاظ سے وہ سپورٹس فوٹوگرافر اور گرافک ڈیزائینر ہے۔غزہ میں شروع ہونے والی جنگ نے مازن کی زندگی میں ناقابل تسخیر تبدیلی کو جنم دیا۔

مازن عبدالجواد مرکزی غزہ کے المغازی کیمپ میں مقیم ہے۔ انہوں نے ترکیہ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قطر میں فلسطینیوں کو رہائش کا مسئلہ درپیش تھا، اس وجہ سے اسے وطن واپس آنا پڑا۔قطر میں فلسطینیوں کا رہنا ایک کارِ مشکل ہے ۔

انہوں نے اپنی درد بھری کہانی کی روداد سناتے ہوئے کہا کہ رات 11 بجے کا وقت تھا ، ہم سب سو رہے تھے جب اسرائیلی راکٹس ہمارے اوپر گِرے۔ یہ وہ منظر تھا جب بچوں ، خواتین اور مردوں کی چیخ و پکار جنگ کے ہولناک لاوے سے پھوٹ رہی تھی۔

مازن نے اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تباہی سے بچنے کے لیے جب ہم ایک عارضی پناہ گاہ کی طرف بھاگے، تو وہاں پر بھی ہمیں میزائل اور راکٹس تباہی مچاتے ہوئے دکھائی دیے۔ ہمارے آگے کنواں اور پیچھے کھائی تھی، ہمارے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں بچی تھی۔ بالآخر ہم وہیں رُک گئے کہ شاید کوئی ہمسایہ سِول ڈیفنس فورس آکر ہمیں اس بربادی سے نکالیں۔

مازن نے اس الم ناک سانحے میں اپنے چچا، اکلوتے بیٹے اوراس کی ساس کو کھو دیا جو بالکل بے گناہ تھے۔مازن کہتے ہیں کہ اس سانحے میں ہمارے کئی رشتہ دار ابھی تک شدید زخمی ہیں اور ہسپتال میں پڑے ہوئے ہیں۔ مازن نے بتایا کہ ان کی چچی ابھی تک نہیں جانتی کہ وہ اپنا اکلوتا بیٹا، شوہر اور ماں کھو چکی ہیں۔ مازن نے ہمیں یہ بُری خبر بھی سنائی کہ اسی سانحے میں وہ اپنے 6 سالہ بھانجے لوجین ابوجیاب اور 3 سالہ میلا ابوجیاب کو کھو چکے ہیں۔ جبکہ ان کا 5 سالہ بھانجا عماد عبدالجواد ابھی تک شدید زخمی ہے۔

غزہ کے رہائشی مازن عبدالجواد زندگی کی سچائیوں سے با خبر ہو چکے ہیں اور اب وہ کوئی بھی بات کرتے ہوئے ڈر محسوس نہیں کرتے کیوں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اپنی اور اپنے پیاروں کی دُنیا تباہ ہوتے دیکھی ہے۔ انہوں نے اسرائیلی جنگی جرائم کا بڑے بے باک طریقے سے انکشاف کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیل روزانہ کی بنیاد پر جنگی جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔

مازن نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 7 ماہ میں ہم پر لاکھوں رپورٹس بن چُکی ہیں اور تحقیقات کی گئی ہیں لیکن کیا اس سے کچھ بدلا؟ کیا اس سے ہماری زندگیاں آسان ہوئیں؟مازن کے مطابق غزہ کو اس بدترین صورتحال سے نکالنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ امتِ مسلمہ نیند سے بیدار ہو اور اپنے جابر حکمرانوں کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرے۔

مازن نے غزہ کے ان حالات سے بھی پردہ اٹھایا جو ابھی تک عالمی توجہ حاصل نہیں کر سکے۔ مازن نے بتایا کہ ابھی تمام آنکھیں رفح پر ہیں جہاں 10 لاکھ سے زائد فلسطینی ہیں ، لیکن وہیں دوسری طرف المغازی کیمپ میں بھی 10 لاکھ سے زائد فلسطینی ہیں جبکہ البریج، النصیرات اور دیر البلاح کیمپ بھی ابھی تک عالمی توجہ حاصل نہیں کر سکے۔ مازن نے بتایا کہ مذکورہ کیمپس میں پانی اور بجلی کی سہولت ناپید ہے۔

مازن نے میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیں اس طرح سے دکھا رہے ہیں جیسے ہم شدید بھوکے اور پیاسے ہیں اور ہم انسانی امداد کو بھاگ رہے ہیں۔ مازن نے واضح الفاظ میں کہا کہ” ہمیں آپ کی امداد نہیں، جنگ بندی چاہیے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا صرف 1٪ غزہ کے لوگوں کو درپیش مسائل دکھاتا ہے، میڈیا ہماری مسیحائی اور نمائندگی کرنے کی بجائے الٹا ہمارے زخموں پر نمک چھڑکتا ہے۔

مازن کہتے ہیں کہ اس ہولناک جنگ میں جہاں انہوں نے بہت سے فلسطینی صحافی کھوئیں وہیں فلسطین ٹی وی کے لیے کام کرنے والے اپنے پیارے چچا نافذ عبدالجواد کو بھی کھو دیا۔ مازن کے چچا فلسطین ٹی وی میں ایک پروگرام ڈائریکٹر تھے۔ مازن نے حیرت انگیز انکشاف بھی کیا کہ غزہ میں صحافیوں کو چُن چُن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ انہوں نے پاکستانی عوام اور صحافیوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ میری پاکستانی عوام اور صحافیوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ فلسطین کے لیے اپنی آواز اٹھاتے رہیں۔

Read Previous

حماس اور فتح کی ممکنہ مفاہمت کے حوالے سے چین میں ملاقات

Read Next

اسرائیل کا ڈوبتا ہوا بیڑہ ۔۔ , "They Can’t Kill Us All.”

Leave a Reply