تحریر : اسلم بھٹی
یحیٰی کمال بیاتلی(1884ء -1958ء) ترکیہ کے معروف ادیب ، شاعر اور سفارت کار تھے ۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ترکیہ کے پاکستان میں سب سے پہلے سفیر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ترکیہ ان اولین ممالک میں سے ایک تھا جس نے پاکستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کر کے یہاں اپنا سفارت خانہ کھولا۔ اس وقت کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا۔
یحییٰ کمال بیاتلی نے اپنی سفارتی اسناد اور کاغذات بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو بذات خود اپنے ہاتھ سے پیش کئے ۔قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کی تعیناتی پر خوشی کا اظہار کیا اور اپنے پیغام میں یوں فرمایا ؛
” ہم امید کرتے ہیں کہ آپ عزت مآب کی مدد اور تعاون سے ہم آپ کے ملک کے ساتھ قریبی سیاسی اور سفارتی تعلقات استوار کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ یوں ہم دنیا بھر کے امن اور خوشحالی میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے ".
یحیٰی کمال بیاتلی 1948ء کے اوائل سے 1949ء تک پاکستان میں سفیر تعینات رہے ۔ انہوں نے اپنے دور سفارت میں ترکیہ اور پاکستان کے درمیان تاریخی ، ثقافتی، مذہبی ، سیاسی اور سفارتی تعلقات کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان برادرانہ اور خوش گوار تعلقات کو نئی جہات بھی فراہم کیں۔
یوں وہ ہمارے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کے بانیوں اور معماروں میں سے ہیں۔ آج اگر دونوں ملکوں کے درمیان مثالی برادرانہ تعلقات موجود ہیں تو اس میں یحییٰ کمال بیاتلی کا بنیادی کردار ناقابل فراموش ہے۔
یحیٰی کمال بیاتلی کا اصل نام احمد آغا تھا ۔ وہ 2 دسمبر 1884ء کو مقدونیہ میں پیدا ہوئے جو اس وقت عثمانی سلطنت کا حصہ تھا۔ انہیں بچپن ہی سے ادب سے شغف تھا ۔ شروع شروع میں انہوں نے اپنے قلمی ناموں سے لکھنا شروع کیا ۔ محمت آغا ، آغا کمال اور سلیمان سعدی کے قلمی ناموں سے مختلف میگزین ، جرائد اور اخبارات میں ان کی تحریریں چھپتی رہیں۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مقدونیہ ہی میں حاصل کی۔ بعد میں وفا ہائی سکول استنبول میں داخلہ لے لیا ۔ اس کے بعد وہ فرانس چلے گئے جہاں سے انہوں نے سوبورنے یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹر کیا۔ انہیں فرانسیسی زبان پر عبور حاصل تھا۔ 1903ء سے 1913ء کے دوران وہ پیرس میں رہے۔ یہاں انہوں نے فرانسیسی ادیبوں کا گہرا مطالعہ کیا۔ ان ادیبوں میں وکٹر ہیوگو ، ڈی بین والا ، پال ویر لین ، جوز ماریہ ، ہیریڈیا اور چارلس بودے لیر شامل ہیں۔ انہوں نے فرانسیسی شاعروں سے متاثر ہو کر اپنی مشہور شعراء آفاق نظمیں لکھیں جن میں۔ ” نظر بد ” اور ” محلیکہ سلطان ” شامل ہیں ۔
1913ء میں وہ واپس استنبول آگئے ۔ یہاں انہوں نے مغربی ادب پر لیکچر دینا شروع کئے۔ استنبول یونیورسٹی میں بھی وہ درس و تدریس سے منسلک رہے۔ ترکیہ کی آزادی کی تحریک میں بھی انہوں نے قلمی طور پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کے مضامین مختلف اخبارات میں آزادی کی حمایت میں شائع ہوتے رہے۔
انہیں اتا ترک کے قریبی ساتھیوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے ۔ اتا ترک نے انہیں 1926ء میں پولینڈ میں سفیر مقرر کیا۔ اس کے بعد وہ 1929ء میں اسپین ، 1931ء میں پرتگال اور 1947ء میں پاکستان میں بطور سفیر تعیینات ہوئے۔ وہ ایک منجھے ہوئے ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی تجربہ کار سفارت کار بھی تھے۔ وہ پاکستان میں ہی تھے جب وہ 1949ء میں سفارت کاری کے شعبے سے سبکدوش ہوئے ۔ 1957ء میں وہ علاج کی غرض سے پیرس چلے گئے۔ وہ یکم نومبر 1958ء کو 73 سال کی عمر میں انتقال کرگئے ۔ آپ کا مزار استنبول میں ہے۔
یحیٰی کمال بیاتلی کا نام ترک ادب میں اہم مقام اور اہمیّت رکھتا ہے ۔ انہیں عثمانی تاریخ اور ادب پر دسترس تھی ۔ انہوں نے اپنی تحریروں ، شاعری اور نظموں کے ذریعے ترک ادب میں انتہائی اہم مقام اور درجہ حاصل کیا۔ انہیں بلقانی ریاستیں کھو جانے کا بہت غم تھا جہاں ان کا بچپن گزرا تھا ۔ وہ استنبول کے شیدائی تھے ۔ اس لیے انہیں ” شاعر استنبول ” بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اس عظیم شہر کو عثمانی تاریخ اور ثقافت کا آئینہ اور مرکز سمجھتے تھے ۔ وہ توفیق فکرت اور جناب شہاب الدین سے بہت متاثر تھے ۔
یحییٰ کمال بیاتلی کی بہت سی تصانیف ہیں جن میں درج ذیل بہت مشہور ہیں ؛
عزیز استنبول
سیاسی حکایات
بچپن ، جوانی ، سیاسی اور ادبی یادیں
مکتوبات
مضامین
سیاسی اور ادبی خاکے
جھکے ہوئے پہاڑ
نامکمل اشعار
میرے پیارے بابا جان
ایرن گاؤں میں بہار
خاموش کشتی
وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ۔
آپ کی مشہور نظموں میں درج ذیل بہت مشہور ہیں ؛
ہراول دستہ
اندلس میں رقص
ایک دوسری چوٹی سے
جولائی کی شام
صدا
ترجیح
قوجہ مصطفیٰ پاشا
مقام
گزشتہ موسم گرما
