
ترک خاتون اول امینہ ایردوان نے اقوام متحدہ میں زیرو ویسٹ کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا "ہم کبھی بھی عالمی معاملات سے لاتعلق نہیں رہے اور ہم ماحولیاتی مسائل کے حل کا حصہ بننے کے لیے پرعزم ہیں۔”
انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز گزشتہ ماہ آنے والے ہولناک زلزلے کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی یاد اور ان تمام ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کیا جنہوں نے اس مشکل وقت میں ترکیہ کا ساتھ نہ چھوڑا ۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے اپنے ملک کی ترقیوں میں اتنے مگن ہے کہ ہم قدرت کے خلاف کھڑے ہو چکے ہیں۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں کچرا کم ترقی یافتہ ممالک کو اس یقین کے ساتھ بھیجا جاتا ہے کہ جو کچرا ہمیں نظر نہیں آتا وہ درحقیقت بے ضرر ہے۔ کچرے کے یہ ڈھیر نہ صرف ماحول کو آلودہ کرتے ہیں بلکہ استعمار کا ایک نیا ورژن بھی بناتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بہت سے ممالک خشک سالی کا شکار ہے اور اس کی وجہ سے دنیا کے مختلف حصوں میں ہزاروں بچے اب بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں یہ بات لمحہ فکریہ ہے ۔ یہ بات دنیا کے ہر ذمہ دار شہری کو بہت تکلیف دیتی ہے کہ دنیا میں ایک سگریٹ کی پیداوار 3.7 لیٹر پانی استعمال کرتی ہے جہاں کروڑوں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اب بھی دنیا کو اس تباہی سے روک سکتے ہیں اگر ہم مل کر ماحولیاتی مسائل کو سنجیدگی سے لیں اور اس کو پر مل کر کام کریں۔
ترکیہ نے 5 سال قبل زیرو ویسٹ پراجیکٹ پر کام کرنا شروع کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں ہم نے 650 ملین خام مال کو بچایا گیا ہے اور ری سائیکلنگ کے ذریعے 4 ملین ٹن گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو ختم کیا گیا ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر ہے کہ ترکیہ کبھی بھی عالمی معاملات سے لاتعلق نہیں رہا اور ہم ماحولیاتی مسائل کے حل کا حصہ بننے کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم این جی او رضاکاروں کے ذریعے اپنی کوششوں کو زیادہ سے زیادہ عوام تک پہنچانے کے لیے زیرو ویسٹ فاؤنڈیشن کے قیام کے عمل میں ہیں۔”
مجھے یقین ہے کہ زیرو ویسٹ کے نام پر اقوام متحدہ کے تحت اٹھایا گیا ہر قدم قابل قدر ہے۔ ترکیہ اور اقوام متحدہ نے اس پراجیکٹ میں ہمارا ساتھ دینے کے لیے تمام دنیا کو دعوت دی ہے کہ اس منصوبے کو آگے بڑھائیں۔ مجھے ایک زیرو ویسٹ رضاکار کے طور پر یہ دیکھ کر فخر اور خوشی ہے کہ ہم نے اپنے ملک میں شروع کیا یہ قومی اقدام اب اس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ یہ باقی دنیا کے لیے ایک مثالی نمونہ بن گیا ہے اور اب یہ ایک مضبوط پالیسی میں تبدیل ہو گیا ہے۔ یہ کامیابی اقوام متحدہ کے تعاون سے ان حساس پالیسی سازوں کی ہے جو بڑے پیمانے پر اس اقدام کو فروغ دے رہے ہیں
انہوں نے مزید کہا کہ دیگر معاملات کی طرح، ہمیں آب و ہوا اور ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے بھی منصفانہ تقسیم پر مبنی ایک منصفانہ نظام کی ضرورت ہے۔
اگر ہم اپنی نسلوں کا مستقبل سنوارنا چاہتے ہیں تو ہمیں آج سے ہی اس پر کام کرنا شروع کرنا پڑے گا
مجھے امید ہے کہ 30 مارچ ہمارے مستقبل اور زمین، ہمارے مشترکہ گھر کی طرف سفر پر ہمارا پہلا قدم ہوگا۔