
برصغیر کی تقریباً ۷۵ کروڑ عورتیں اس وقت اپنی شناخت، حقوق اور برابری کی ایک لمبی جنگ لڑ رہی ہیں، وہ چاہیے ہندوستان میں نقاب پوش مسکان خان کا تعاقب کرنے والے ہندو طلبا کے جے شری رام کے جواب میں اللہ اکبر کے نعرے کی صورت میں ہو یا پاکستان میں عورتوں کی ‘میرا جسم میری مرضی’ کی مہم کی شکل میں ہو۔
مسکان خان کی جتنی تعریف بر صغیر کے مسلمان کر رہے ہیں اتنی مخالفت پاکستانی عورتوں کی ہو رہی ہے جو آٹھ مارچ کو سالانہ عورت مارچ کی تیاری میں اپنی ہم جنس کو جمع کررہی ہیں۔
بھارت میں عورت کا پردہ سیاسی اور قانونی مسلۂ اختیار کر چکا ہے جس کے پیچھے بظاہر انتہا پسند ہندووں کا ہاتھ بتایا جارہا ہے۔ یہ مسلۂ اُس وقت سنگین بن گیا جب جنوبی ریاست کرناٹک میں چھ مسلم طلبا نے کالج انتظامیہ کے خلاف کلاسوں میں جانے سے انکار کردیا جب اُنہیں حجاب اُتار نے کا حکم دیا گیا۔
کالج انتظامیہ کے مطابق وہ ریاستی حکومت کے احکامات کی پاسداری کر رہی ہے جس نے تعلیمی اداروں میں کلاسوں میں حجاب پہنے پر پابندی عائد کی ہے۔
مسلم طلبا کے احتجاج اور بائیکاٹ کے اس پس منظر میں جب ۱۹ برس کی مسکان خان حجاب پہن کر کالج میں داخل ہوئی تو ہندو اور انتہا پسند درجنوں طلبا نے نارنجی رنگ کی شالیں پہن کر اس کا تعاقب کیا۔ وہ جے شری رام کا نعرہ بلند کر رہے تھے۔ مسکان خان نے اُن کے جواب میں اللہ اکبر کا نعرہ دیا اور کلاس کی جانب آگے بڑھتی رہی جس نے بعد میں میڈیا کو بتایا کہ اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرنے سے اُس کے اندر ہمت پیدا ہوئی۔
مسکان خان کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائیرل ہوگئی۔
بھارت کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں وہ مزاحمت کی ایک علامت بن گئی اور میڈیا کا ایک بڑا موضوع بھی۔
حیدرآباد کے صحافی راشد حسین کہتے ہیں کہ “ہندوستان کی اقلیتوں میں پہلی بار بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں کے خلاف بولنے کی ہمت آگئی جبکہ اپوزیشن نے مسلمانوں کے خلاف چلائی جانے والی بی جے پی کی اس مہم کے پیچھے ووٹ حاصل کرنے کی کار ستانی سے تعبیر کیا”۔
یاد رہے بھارتی ریاست اُتر پردیش سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے جارہے ہیں جن کے نتائج دس مارچ کو ظاہر ہونگے۔ اُتر پردیش کی ریاستی اسمبلی کے انتخابی نتائج سے یہ بات واضح ہوگی کہ ۲۰۲۴ میں پارلیمانی انتخابات میں کیا بھارتیہ جنتا پارٹی دوبارہ اقتدار حاصل کرسکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو بیشتر سیاسی مبصرین خدشہ ظاہرکر رہے ہیں کہ بی جے پی سیکولر ملک کی شبیہ مٹاکراسے ہندو راشٹر میں تبدیل کرسکتی ہے جس سے ملک کی بیس فیصد اقلیتیں شدید طور پر متاثر ہوسکتیں ہیں۔
بھارتی مسلمان شکایت کررہے ہیں کہ اُن کے لیے اس وقت حالات سنگین بنائے جارہے ہیں اور اُن کا رہن سہن، خوراک، پوشاک، مذہب یا روزگار پر ہندوتوا کے حملوں کی ذد میں ہیں۔
مسلمان عورتیں سب سے زیادہ پریشان ہیں جو سمجھتی ہیں کہ اُنہیں مذہب کے دائرے میں رہ کر حصول تعلیم سے بھی شاید محروم کیا جارہاہے۔
ہندوستان کے آئین میں ہر کسی کو اپنے عقیدے کے مطابق تمام مراعات اور آزادی سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے لیکن ملک میں انتہا پسندی کی شدید لہر کے باعث مسلمان خوف اور دہشت کا شکار ہورہے ہیں۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور عمران خان کی حکومت آنے کے بعد مسلم قوانین کے اطلاق پر زور دیا جانے لگا ہے حالانکہ کسی بھی کٹر مذہبی جماعت کو آج تک انتخابات میں اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے۔
چند برسوں سے مسلمان عورتوں کی مساوی حقوق کے حصول کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں، بلخصوس عورت مارچ چلانے والی عورتوں کی، جنہوں نے ‘میرا جسم میری مرضی’ کا نعرہ دے کر بیشتر مردوں کو نہ صرف ناراض کردیا ہے بلکہ بعض حضرات ان کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ بھی کرنے لگے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان عورتوں کو اسلام مخالف تحریک چلانے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔
پاکستان کے اکثر مرد، عورت مارچ کو مغرب میں جاری حقوق نسواں کی تحریکوں سے جوڑ رہےہیں جو سمجھتے ہیں کہ “عورت نے کسی حد تک مساوی حقوق حاصل تو کئے ہیں لیکن معاشرتی طور پر کافی ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، جس سے گھر گر ہستی، بچوں کی پرورش اور خاندانی نظام بُری طرح متاثر ہوچکاہے”۔
مغربی ملکوں میں خود بعض اداروں کے سروے میں بتا دیا گیا ہے کہ “عورت کی لامحدود معاشرتی اور معاشی آزادی سے گھر گھر نہیں رہا ہے۔ بیشتر دفتروں میں عورتوں کی اکثریت بھرتی ہونے سے مرد کو گھر اور بچے سنبھالنے پڑ رہے ہیں جس سے بچوں کی نشوونما یا ازدواجی زندگی پر منفی اثرات محسوس کیے جارہے ہیں”۔
گھریلو تشدد یا دفتروں میں جنسی طور ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھا جارہا ہے مگر جتنے معاملات بعض مغربی ملکوں میں رپورٹ ہورہے ہیں اُتنے مشرقی یا اسلامی ملکوں میں نہیں ہیں۔ مشرقی ملکوں خصوصا اسلامی ملکوں میں خواتین ایسے معاملات درج کروانے سے ڈرتی ہیں یا معاشرہ اس کو جان بوجھ کر دباتا رہا ہے۔
بعض رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ اگر مغربی ملکوں میں دس لڑکیوں میں ایک لڑکی جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے مشرقی ملکوں میں اس کی تعداد زیادہ ہے جہاں لڑکیاں ایسے معاملات بتانے کی جرت نہیں رکھتیں ہیں اور نہ والدین اس کا ا فشا کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔
البتہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت اُن دس ملکوں میں شامل ہے جو جنسی نا برابری کے انڈیکس میں بد ترین قرار دیے گئے ہیں۔
پاکستان میں مختارہ مائی سے لے کر نور مقدم سمیت ریپ اور قتل جیسے ہزاروں معاملات منظر عام پر آتے رہے ہیں۔ قوانین موجود ہونے کے باوجود ان کا سختی سے اطلاق نہیں ہوتا۔
معاشرے میں عورت کے تئیں اب بھی گہرا جنسی تعصب پایا جاتا ہے۔
اسلامی ملک ہونے کے باوجود عورت کو وہ حقوق حاصل نہیں ہیں جس کی وہ اسلام کے مطابق حقدار ہے، اُس پر ستم یہ کہ اگر عورت اپنے حقوق کی خاطر آواز اُٹھاتی ہے تو اس کو مغرب زدہ کہہ کر معاشرے میں تذلیل کیا جاتا ہے۔
مذہب اسلام نے تاکید کی ہے کہ ہر عورت عزت کی حقدار ہے۔ اکثر مردوں کو اس سے بڑی کوفت ہوتی ہے پھر وہ خود کو اسلام کے ٹھیکدار بھی سمجھتے ہیں۔
لاہور کی حقوق نسواں کی کارکُن گوہر نایاب کہتی ہیں کہ “ اگر اسلامی ملک میں اسلام کے دائرے میں رہ کر عورت کو وہ رتبہ ملے جس کے لئے وہ جدو جہد کر رہی ہے تو اس سے مرد حضرات کو شکایت تو نہیں ہونی چاہیے۔ شادی و بیاہ، گھر گر ہستی، پرورش، حصول تعلیم، روزگار یا جائداد پر عورت کے باقاعدہ حقوق ہیں جن کو ہمارے معاشرے میں اکثر سلب کیا جاتا رہا ہے حتی کہ بیشتر عورتیں حق مہر سے بھی محروم رہتی ہیں”۔
اصل میں اس پورے مسلے کو سمجھنے اور پھر سدھارنے کی ضرورت ہے نہ کہ جائیز حقوق کا مطالبہ کرنے والی عورتوں کو مغرب زدہ یا اسلام مخالف لیبل لگانے کی۔
گوہر نایاب مزید کہتی ہیں کہ “میرا جسم میری مرضی کو اگر اسلام کے تناظر میں دیکھیں تو ہمارے مذہب نے بھی ہر معاملے میں عورت کی مرضی کو مقدم سمجھا ہے لیکن بعض ان پڑھ مولانا حضرات کو یہ بات موافق نہیں لگتی”۔
ہندوستان میں “میریٹل ریپ” پر ایک بڑی بحث چھڑ گئی ہے۔ بعض ہندو انتہا پسند اس کو ریپ نہیں سمجھتے اور اسے مرد کے ساتھ حق تلفی تصور کرتے ہیں۔
برصغیر میں چند ایسی انتہائی ماڈرن عورتیں بھی ہوں گی جو گھر گر ہستی، بچوں کی پرورش یا معاشرے کا سدھار مردوں کے کاندھے پر ہی ڈالنا چاہتی ہیں یا ان ذمہ داریوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کو ہی مساوی حقوق سے تعبیر کرتی ہیں مگر شاید وہ اُس مخصوص حس سے خالی ہیں جو اللہ تعالی نے صرف عورت کو عطا کی ہے اور جس کے ہوتے ہوئے وہ اپنے تعلیم، کریر کے ساتھ ساتھ گھر، کمیونٹی اور ملک کی نوک پلک سدھارنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے۔
شرط یہ ہے کہ عورت کی عزت ہو، اسے انسان سمجھا جائے اور اسے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقعہ دیا جائے۔ وہ دنیا کو جنت بنا سکتی ہے۔