
سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران مختلف قانونی اور آئینی نکات پر سوالات اٹھائے۔ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں قائم 7 رکنی آئینی بینچ نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے اہم سوالات کیے۔
خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ، ٹرائل کے لیے جرم کی نوعیت سے یہ طے ہوتا ہے کہ ،کیس کہاں چلے گا۔ اگر جرم کا تعلق مسلح افواج سے ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے اس پر کہا کہ ،جرم کرنے والے کی نیت بھی دیکھی جانی چاہیے کہ، آیا اس کا مقصد ملک کے مفاد کے خلاف تھا یا نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ،نیت کا جائزہ ٹرائل کے دوران لیا جا سکتا ہے۔ خواجہ حارث نے مزید وضاحت کی کہ، اگر جرم کا تعلق آرمی ایکٹ کے تحت آتا ہے اور جرم کے پیچھے گٹھ جوڑ موجود ہو، تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں کیا جائے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ،آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) حملے کے وقت گٹھ جوڑ اور آرمی ایکٹ موجود ہونے کے باوجود فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟ فوجی عدالتوں میں دہشتگردوں کے ٹرائل کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس پر خواجہ حارث نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ، 21 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے کئی اضافی جرائم، جو ڈسپلن اور فرائض سے ہٹ کر تھے، ملٹری کورٹ کے دائرہ اختیار میں شامل کیے گئے۔
جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ، جی ایچ کیو اور کراچی ایئربیس حملوں کا کیس ملٹری کورٹ میں کیوں نہیں گیا؟ اس پر وزارت دفاع کے وکیل نے جواب دیا کہ، 21 ویں آئینی ترمیم کے فیصلے میں ان حملوں کی تفصیلات موجود ہیں۔
جسٹس جمال نے پوچھا کہ، دہشتگرد گروپ یا مذہب کے نام پر ہونے والی دہشتگردانہ کارروائیوں کا ٹرائل کہاں ہوگا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ، آرمی ایکٹ کے تحت ان جرائم کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوگا اور آئینی ترمیم کے بغیر بھی ملٹری کورٹس ان کیسز کی سماعت کر سکتی ہیں۔
بعد ازاں، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔