turky-urdu-logo

جنگ کون جیتا؟ ایران کی حکمت یا اسرائیل کی جارحیت؟

13 جون 2025 — مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن دن۔ یہ محض ایک دن نہیں تھا، بلکہ طاقت، خوف، بیانیے اور سفارت کاری کی جنگ کا نقطۂ عروج تھا۔ اس روز ایران اور اسرائیل کے درمیان وہ ہوا جس نے صرف خطے ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا کو لرزا دیا۔ اس جنگ میں میزائلوں سے زیادہ نظامِ فکر، صبر، اور حکمت آمنے سامنے تھے۔

 "آپریشن رائزنگ لائن”

کشیدگی کئی ہفتوں سے بڑھ رہی تھی، مگر 13 جون 2025 کی صبح اسرائیل نے "آپریشن رائزنگ لائن” کے تحت ایران پر بھرپور حملہ کر دیا۔

ان حملوں میں:

نطنز، اصفہان، خوزستان میں ایرانی نیوکلیئر اور فوجی مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔

درجنوں ایرانی سائنسدان، فوجی افسران اور تکنیکی ماہرین شہید کردئیے گئے ۔

اسرائیلی میڈیا نے اسے "فیصلہ کن حملہ” قرار دیا۔

یہ حملہ درحقیقت اسرائیل کے خوف کا اعلان تھا ۔

ایران نے صرف چند گھنٹے بعد ایک ایسا جوابی وار کیا، جس نے دنیا کی آنکھیں کھول دیں۔

اسی رات ایران نے:

300 سے زائد بیلسٹک میزائل

150 خودکش ڈرونز

براہِ راست اسرائیل کی سرزمین پر داغے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ایران نے کھلے عام اسرائیلی اہداف کو اپنے قومی سرزمین سے نشانہ بنایا۔

 آئرن ڈوم کا زوال:

اسرائیل کا فخریہ دفاعی نظام "آئرن ڈوم” جس کی کامیابی کی شرح ماضی میں 90 فیصد تھی، 13 جون 2025 کی رات بے بس نظر آیا:

ایران کے حملوں میں صرف 60 فیصد میزائل روکے جا سکے۔

ان حملوں میں دو اہم اسرائیلی ایئر بیسز تباہ ہوئیں۔

درجنوں فوجی اور شہری زخمی ہوئے۔

اربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔

تل ابیب اسٹاک مارکیٹ شدید مندی کا شکار ہوئی ۔

دنیا نے اس مختصر جنگ میں ایران کی تین سطحی عسکری حکمتِ عملی دیکھی۔

1. Saturation Attack:

اتنی بڑی تعداد میں میزائل فائر کیے گئے کہ دفاعی نظام اوورلوڈ ہو گیا۔

2. ڈرون + میزائل مشترکہ حملے:

ریڈار اور میزائل ڈیفنس سسٹمز کنفیوز ہو گئے۔

3. نئی جنریشن ٹیکنالوجی:

تیز رفتار، کم اونچائی پر پرواز کرنے والے، اور ریڈار سے بچ نکلنے والے میزائل استعمال کیے گئے۔

یہ صرف ہتھیار نہیں تھے، بلکہ جدید عسکری ذہانت کا مظاہرہ تھا۔

 امریکہ کی مداخلت — سفارتی خودکشی؟

ایران کے بھرپور جواب سے گھبرا کر، اسی ہفتے امریکہ نے بھی میدان میں قدم رکھا۔ امریکی فضائیہ نے:

نطنز، فردو، اور اراک کی تین نیوکلیئر فیسیلٹیز پر حملہ کیا۔

حملے میں کچھ تنصیبات متاثر ہوئیں، مگر اصل نقصان سیاسی سطح پر ہوا۔

دنیا کا ردعمل:

یورپی یونین، اقوام متحدہ، ترکیہ، پاکستان، برازیل سمیت درجنوں ممالک نے امریکی مداخلت کی مذمت کی۔

خود امریکہ کے اندر شدید عوامی اور سیاسی مخالفت ابھری:

"Why are we risking World War III for Israel?”

"This is not our war.”

جیسے نعرے بلند ہوئے۔

ایران نے امریکہ کو براہِ راست جارح قرار دے کر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا مقدمہ اٹھایا، اور دنیا کی ہمدردی سمیٹ لی۔

 ایران کی سفارتی اور عوامی برتری

چین، روس، پاکستان نے ایران کے مؤقف کی تائید کی۔

خلیجی ریاستیں جو کبھی اسرائیل کی حلیف تھیں، ایران سے رابطے میں آئیں۔

یورپ میں اسرائیل مخالف مظاہرے زور پکڑ گئے۔

اقوامِ متحدہ میں ایران کے مؤقف کو قانونی حیثیت حاصل ہوئی۔

 نفسیاتی جنگ: کون جیتا؟

اسرائیلی عوام نے خوف کے مارے راتیں بم شیلٹرز میں گزاریں۔

پہلی بار اسرائیلی میڈیا نے کہا: "ہم ناقابلِ شکست نہیں رہے”۔

ایرانی عوام نے اتحاد، صبر اور مزاحمت کا پیغام دنیا کو دیا۔

یہ جنگ ہمیں یہ سکھا گئی کہ اصل فتح گولہ بارود سے نہیں، حکمت، صبر، اور درست وقت پر جواب دینے سے حاصل ہوتی ہے۔

Read Previous

ایران میں ممکنہ خلا: کیا پاکستان ترکی سے سیکھے گا؟

Read Next

کیا دوحہ مسلم دنیا کا ویسٹ فیلیا بن سکتا ہے؟

Leave a Reply