تحریر: مسروراحمد
کسی دانشور نے کیا خوب حقیقت پسندانہ بات کی ہے کہ "جنگوں میں سب سے پہلے سچ کی موت واقع ہوتی ہے۔” روس اور یوکرائن کے مابین جاری جنگ میں بھی کچھ ایسا ہی نظر آ رہا ہے۔ میڈیا کا زیادہ تر کنٹرول یورپی ممالک اور امریکہ کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے جنگ کے اسباب کا مجموعی بیانیہ روس کے خلاف ہے۔یہ بات درست ہے کہ جنگ میں پہل روس نے کی ہے اور جنگ مسلط کرنے کی کوئی بھی منطق قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ لیکن روس کو اس نہج تک لانے میں بھی امریکہ اور یورپی ممالک کے دہرے اور منافقانہ معیارات ہیں۔ سچ یہ ہے کہ یوکرائن کو روس سے تعلق توڑنے کی قیمت پر اور نیٹو اور امریکہ کا اتحادی بننے کی صورت میں سہانے مستقبل کے خواب دکھاکرر روس کو مسلسل اشتعال دلایا گیا۔ سو اس صورتحال کا جتنا روس ذمہ دار ہے اتنے ہی مغربی ممالک اور امریکہ بھی ہیں۔اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو روس اور یوکرائن کی موجود کشمکش ایک طے شدہ پروگرام کا حصہ ہے۔
1992میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد امریکہ نے طے کر لیا تھا کہ وہ آئندہ کسی ملک کو یہ اجازت نہیں دے گا جو امریکہ کو چیلنج کر سکے۔ باوثوق ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ موجودہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو تخلیق کرنے میں امریکہ کا اپنا ہاتھ ہے اور جو بظاہر نظر آرہا ہے وہ حقیقت نہیں ہے بلکہ پردے کے پیچھے کچھ اور ہے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ جنگیں اور تنازعات موجودہ عالمی اسٹیٹس کو برقرار رکھنے اور سرمایہ دارانہ نظام کو سہارا دینے کیلئے بہت ضروری ہیں۔چودھراہٹ برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ چودھراہٹ قائم کرنے کے دیگر دعویٰ داروں کو مات دی جائے اور انھیں کمزور کیا جائے۔ چین یہ گریٹ گیم سمجھتا ہے، عقلمند ہے۔ اسی لئے طاقت اور مواقع ہونے کے باوجود تائیوان یا کسی اور متنازعہ علاقے جس پر چین کا دعویٰ ہے چین مناسب وقت کے انتظار میں ہے اورجنگ کے ذریعے ان علاقوں کو حاصل کرنے سے اجتناب کر رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی ٹھیکیداروں کی یہی چال ہے کہ ان کی بقا اور اس نظام پر اجارہ داری دوسروں کو کمزور رکھنے میں پوشیدہ ہے۔بظاہر تہذیب اور اخلاقیات کے چیمپئن حقیقت میں بنیادی اخلاقیات تک سے بھی عاری ہیں۔
نیٹو کو اسی مقصد کے تحت دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد 4 اپریل 1949میں تخلیق کیا گیا تھالیکن روس مسلسل امریکی بالا دستی کو چیلنج کرتا رہا یہاں تک کہ 1992 میں کمیونزم کے زوال اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کا دیرینہ خواب پورا ہو گیا۔ نیٹو نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے دیگر یورپی ممالک کو بھی اپنے اتحاد کا حصہ بنانے کے عمل کا آغاز کر دیا۔ مسلمانوں کی طرح روس بھی اپنے شاندار ماضی کے حصار سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکا اور پیوٹن جیسے ایڈوینچر کے شوقین شخص کے اقتدار میں ہونے سے اس نے پھر ماضی کی شان و شوکت حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کاآغاز کر دیا۔ روس چاہتا ہے کہ 1992 میں سوویت یونین سے الگ ہوکر نئے بننے والے ممالک اپنے دفاع اور معیشت کیلئے روس سے جڑے رہیں۔ خاص طور پر روس نے مشرقی یورپ میں نیٹو کی سرگرمیاں روکنے کیلئے کئی مرتبہ زبانی یقین دہانیاں حاصل کیں۔ لیکن امریکی آشیرباد کے ساتھ نیٹو اپنے دفاعی پارٹنرز میں مسلسل اضافہ کرتا چلا گیا۔ شروع میں نیٹو کے بارہ رکن تھے جن کی تعداد اب بڑھتے بڑھتے تیس ہو چکی ہے۔جب پولینڈ، ہنگری اور چیکو سلواکیہ کونیٹو کا اتحادی بنایا گیا تو1999 میں روس نے امریکہ کوخبردار کیا تھا کہ نیٹو کے توسیع پسندانہ عزائم کو روکا جائے اور امریکہ نے وعدہ بھی کیا۔ لیکن بعد میں اس کے برعکس نیٹو نے ماضی میں روسی اثرورسوخ کے زیر تحت رہنے والے ممالک مقدونیہ، بوسنیا،جارجیا، اسٹونیا، البانیہ، لتھوانیا، لٹویا، سلوانیا، مونٹی نیگرو، کروشیا کو بھی نیٹو کا رکن بنا کر روسی سرحد کے پاس پہنچ گیا۔اس عمل کے دوران روس نے کبھی دبے اور کبھی واشگاف الفاظ میں نیٹو اور امریکہ سے احتجاج کیاکیونکہ روس ہر صورت نیٹو کو اپنی سرحدوں سے دور رکھنا چاہتا تھا۔ جب نیٹو روس کی دفاعی شہہ رگ اور بفر زون یوکرائن تک پہنچ گیا تو اب روس کیلئے خاموش رہنا مشکل تھا۔ یوکرائن کو متعدد مرتبہ نیوٹرل رہنے کی واراننگ دینے کے باوجود یوکرائن کے پہلی مرتبہ سیاست میں آنے اور2019 میں صدارت کا عہدہ سنبھالنے والے ولادی میر زیلنسکی بہرصورت نیٹو اتحاد کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ سابقہ ٹی وی کامیڈین زیلنسکی کے سیاست میں اناڑی پن کا اسی سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موصوف اب بھی کہتے پھرتے ہیں کہ انھیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ روس ان کے نیٹو میں جانے کے فیصلے کے نتیجے میں یوکرائن پر حملے جیسا انتہائی قدم بھی اٹھا سکتا ہے۔ یوں اگر دیکھا جائے تو یہی نتیجہ سامنے آئے گا کہ شطرنج کی موجودہ بساط خود امریکہ نے بچھائی ہے جس کا مقصد روس کی ابھرتی ہوئی قوت کو پابندیاں لگا کرکمزور اور عالمی برادری میں اسے تنہا کرناہے۔ اب اگر روس کو یوکرائن پر قبضے سے روکنے کیلئے یورپی ممالک نے ہتھیاروں کی ترسیل شروع کر دی تو جنگ کا دائرہ کارمزید بڑھ جائے گا اور باقائدہ تیسری عالمی جنگ کا طبل بھی بج سکتا ہے۔ ماضی میں یوکرائن سلطنت عثمانیہ اور یورپ کے درمیان بفر زون کا کردار ادا کرتا رہاہے۔ عثمانی اور یورپی فوجوں کے درمیان کئی معرکے یوکرائن کی سرزمین پر ہوئے اور یوکرائن کے لوگوں نے دونوں قوتوں سے الگ الگ خفیہ معاہدے کر رکھے تھے اور انھیں سامان رسد بیچ کر دولت کماتے تھے کیونکہ یوکرائن زرعی اعتبار سے ایک انتہائی زرخیز خطہ ہے۔ تاریخی شواہد اور حقائق یہ بھی کہتے ہیں کہ عثمانیوں اور یورپی فوج کے درمیان جنگ کو یوکرائن کے لوگ اپنے تجارتی اور مالی مفادات کیلئے جان بوجھ کر بھڑکاتے تھے۔ ان جنگوں سے بھاری منافع کمانے والے یہودیوں نے عالمی صیہونی تحریک کا آغاز یوکرائن کی سرزمین سے ہی شروع کیا تھا۔جبکہ موجودہ صورتحال میں نیٹو کا اتحادی ہونے کی صورت میں حاسل ہونے والے ممکنہ فوائد نے ریاست کی بقا کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ایک محتاظ اندازے کے مطابق امریکہ نے اکیلے اور کئی مواقعوں پرمغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کراپنی بالادستی کیلئے سو سے زائد جنگیں لڑی ہیں جن میں ایک کروڑ سے زیادہ معسوم شہری ہلاک ہوئے جو موجودہ روس یوکرائن جنگ میں ہلاک ہونے والوں کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ ایسے میں روس پر تنقید اور انسانی حقوق کا واویلا کرنے پر اسے منافقت کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔نام چومسکی اپنی ایک کتاب پالیٹیکل اکانومی آف ماس کمیونیکیشن میں موجودہ تعلیمی نظام کے بارے میں لکھتا ہے کہ ” تعلیم لوگوں کو درحقیقت جاہل رکھنے کا ایک مربوط نظام ہے "۔میڈیا کے طاقتور مغربی ادارے سچ کو چھپاتے اور اپنے ورلڈ آرڈر اور نظام کے حق میں رائے عامہ کو ہموارکرنے کیلئے جہالت اور جھوٹ کو میڈیا کے ذریعے فروغ دیتے ہیں۔ سچ بھی یہی ہے کہ یہ تعلیمی نظام محض سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار اور اسی کے تحفظ کیلئے ہے۔ جبکہ حقیقی شعور صرف انفرادی طور پر مسلسل مطالعے اور تحقیق کی جستجو سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام نیوٹرل ممالک چین کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر روس کے تحفظات کو تسلیم کرنے کیلئے امریکہ اور نیٹو ممالک پر دباؤ ڈالیں تاکہ جنگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو بجھایا جاسکے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کو بھی یہ بات سمجھنا ہو گی کہ جنگ اور اجارہ داری کا شوق ہمیشہ نفع آور ثابت نہیں ہوتا اور دوسروں کیلئے خندق کھودنے والے ایک دن خود بھی اس خندق میں گر سکتے ہیں۔یوکرائن جو خود امریکی اتحاد کا حصہ بن کر ماضی میں عراق، افغانستان سمیت مختلف ممالک میں فوجیں بھیجتا رہا ہے شائد اسی مکافات عمل کا شکار ہوا ہے۔ بہر حال دنیا کے ہر امن پسند شخص اور ملک کو یوکرائن اور روس کے درمیان فوری سیز فائر اور دونوں فریقوں کے درمیان کامیاب مذاکرات کیلئے اپنی کوششیں تیز کرنا ہو ں گی ورنہ جنگ کا دائرہ کار اگر بڑھ گیا تو پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ روس پہلے ہی ببانگ دہل ایٹمی حملے کی دھمکیاں دے رہاہے صورتحال کی سنگینی کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے۔
مسرور احمد میڈیا اسٹڈیز کے سکالر اور پاکستان کے ایک وفاقی ادارے میں گریڈ اٹھارہ کے افسر ہیں ۔ اسلام آباد میں رہائش پزیر ہیں ۔ انگریزی و عربی ادب پربھی بہت اچھی دسترس ہے۔ عمومی طور پر سماجی مسائل، علاقائی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے بارے اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں طنز برائے اصلاح کا پہلو نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ اب تک ان کے پانچ سو سے زائد اردو اور انگریزی مضامین قومی اور بین الاقوامی اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں۔
ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
mindshare2000@gmail.com
