turky-urdu-logo

مغرب-اسرائیل تعلقات کا بدلتا منظرنامہ

گزشتہ پوری صدی کے دوران صہیونیوں اور اسرائیل کو مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ، برطانیہ اور یورپ کی جانب سے بے مثال فوجی، مالی اور سفارتی حمایت حاصل رہی ہے۔ یہ حمایت تاریخی تعلقات، مشترکہ اسٹریٹجک مفادات اور ہولوکاسٹ ڈرامے کے بعد کے نام نہاد اخلاقی وعدوں میں پیوست تھی۔ تاہم، حالیہ واقعات، خاص طور پر غزہ میں جاری تنازع اور جون 2025 میں ایران پر اسرائیل کے حملے نے اس کے اور دیرینہ اتحادیوں میں در آنے والے تناؤ کو بے نقاب کیا ہے۔

آیئے تجزیہ کرتے ہیں کہ کس طرح اسرائیل کی جارحانہ پالیسیاں، عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے نتیجے میں اس کی روایتی حمایت ختم ہو رہی ہے۔ یہ تبدیلی حکومتی سطح پر بھی واضح دکھائی دیتی ہے، لیکن عوامی سطح پر یہ بہت زیادہ نمایاں ہے۔

حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے ایک غیر انسانی ردعمل دیکھنے کو ملا، جس نے پچاس ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کیا، غزہ کا زیادہ تر حصہ ملیامیٹ کر دیا، اور اس کی 90 فیصد آبادی کو بے گھر کر دیا، جس سے قحط کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر مذمت اور جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی مطالبات میں اضافہ ہوا، امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بار بار ویٹو کیا۔

یورپی ممالک (جو ابتدا میں اسرائیل کے حقِ دفاع کی حمایت کرتے تھے) اب اسرائیل کی "ظالمانہ پالیسیوں، بشمول منظم بھوک کے ہتھیار” پر تنقید کر رہے ہیں۔ کونسل آف یورپ نے عام شہریوں، بچوں، امدادی کارکنوں اور دیگر محفوظ افراد پر حملوں کے ساتھ ساتھ بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے، جبری نقل مکانی، اور انسانی امداد تک رسائی میں رکاوٹ کو جنیوا کنونشنز اور بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزیاں قرار دیا۔ جس کے بعد سے بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کی بنیاد پر "اسرائیل کے حقِ دفاع” کا جائزہ لینے کے مطالبات ہو رہے ہیں۔

اسرائیل نے اب ایران پر بلا جواز ایک بڑا حملہ کیا، جس میں جوہری اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، اعلیٰ فوجی اور جوہری سائنس دانوں کو شہید کیا۔ حیرت انگیز طور پر امریکہ نے اس کارروائی میں اپنی "عدم شمولیت” کا واضح طور پر اعلان کیا، اور برطانیہ نے بھی اپنی عدم شرکت کا اظہار کیا۔ یورپی یونین کے رہنماؤں نے اسرائیل کی کارروائی پر "گہری تشویش” کا اظہار کیا، اور فریقین سے تحمل اور کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کیا۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل نے اپنے اتحادیوں کی کشیدگی میں کمی اور سفارت کاری کی ترجیحات کے باوجود یکطرفہ کارروائی کی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کے جواب میں، مغربی حکومتوں نے اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینا شروع کر دیا ہے، جس سے اسرائیل کے لیے روایتی حمایت میں کمی آئی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر اسرائیل کے حملوں میں نہ صرف "شامل نہ ہونے” کا واضح بیان دیا، بلکہ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے واضح کیا کہ یہ اسرائیل کی "یکطرفہ کارروائی” ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے اندر کچھ قدامت پسند آوازیں، جیسے "ٹَکَر کارلسن” اور "رینڈ پال” وغیرہ نے کھلے عام "اسرائیل کو ترک کرنے” اور امریکہ کے اپنے مفاد کے خلاف جنگ میں شامل نہ ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔

برطانیہ نے ایران پر اسرائیل کے جون 2025 کے حملوں کے حوالے سے واضح طور پر کہا کہ اس نے "اس کارروائی میں حصہ نہیں لیا”۔ برطانیہ نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ "فوری طور پر پیچھے ہٹیں، تحمل کا مظاہرہ کریں اور کشیدگی کو کم کریں”۔ برطانیہ نے، فرانس اور کینیڈا کے ساتھ مل کر، غزہ کی ناکہ بندی کے ذریعے "انتہا پسندانہ تشدد کو بھڑکانے” اور بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کرنے پر دو وزرا سمیت اسرائیلی حکام پر پابندیاں عائد کی ہیں۔

فرانس، جرمنی اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک نے بھی غزہ میں اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید تیز کر دی ہے، جس میں بطور خاص "بھوک کو ہتھیار بنانے” کا استعمال شامل ہے۔ کچھ یورپی ممالک مثلاً اسپین، آئرلینڈ، ناروے، سلووینیا نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات معطل کر دی ہیں، فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے، اور "عالمی عدالتِ انصاف” (ICJ) میں قانونی کارروائی کی حمایت کی ہے۔ یورپ کے اہم ملک اٹلی نے اسرائیل کو نئے ہتھیاروں کے برآمدی لائسنس مؤثر طریقے سے منجمد کر دیے ہیں۔

یہ تبدیلیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یورپ اور اسرائیل کے درمیان ماضی کی روایتی "خاص اسٹریٹجک شراکت داری” نمایاں طور پر ختم ہو رہی ہے، اور یورپی یونین تیزی سے ایک زیادہ آزاد خارجہ پالیسی کا موقف اختیار کر رہی ہے۔

حکومتی سطح پر دوری کے ساتھ ساتھ، مغربی ممالک میں اسرائیل کی عوامی حمایت میں بھی نمایاں کمی آئی ہے، جو خاص طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے نمایاں ہو رہی ہے۔

مغربی ممالک میں اسرائیل کے لیے حمایت میں ایک نمایاں "نسلی تفاوت” دیکھنے میں آ رہی ہے؛ 30 سال سے کم عمر کے صرف 41% امریکی اسرائیل کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں، جبکہ 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد میں یہ شرح 69% ہے۔ یہ فرق نئی نسل کی اپنی اقدار اور معلومات حاصل کرنے کے ذرائع میں فرق کی بنیاد پر ہے۔ نوجوان نسلیں عالمی واقعات سے آگاہی کے لیے بنیادی طور پر X، ٹک ٹاک اور انسٹاگرام جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے معلومات حاصل کرتی ہیں، جہاں کئی طرح کی سنسرشپ کے باوجود "فلسطینی مصائب کی دل دہلا دینے والی تصاویر” اور معلومات کا حصول ممکن ہوتا ہے۔

امریکہ میں اسرائیل کے لیے حمایت، جو کبھی مکمل غیر مشروط ہوا کرتی تھی، اب کئی عوامل کی بنیاد پر تقسیم ہو چکی ہے۔ تازہ سروے کے مطابق 74% ریپبلکن اسرائیل کے لیے مثبت رائے رکھتے ہیں، جبکہ ڈیموکریٹس میں یہ شرح صرف 44% ہے۔

برطانیہ کے اندر اسی جون کے مہینے میں ہونے والے ایک "یوگَو سروے” سے پتا چلا ہے کہ صرف 19% برطانوی بالغ افراد کا خیال تھا کہ برطانیہ کو "ایران کے ساتھ جنگ” میں اسرائیل کی حمایت کرنی چاہیے، جبکہ 50% نے "کسی بھی قسم کی حمایت نہ کرنے” کے آپشن کا انتخاب کیا تھا۔

اسرائیل کے ایک اور روایتی حریف جرمنی میں ہونے والے ایک تازہ سروے میں 80% جرمنوں نے غزہ پر اسرائیل کے حملوں کی کھل کر مخالفت کی ہے۔

اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں پر عوامی غصہ حکومتوں پر دباؤ پیدا کر رہا ہے، جو مغربی ممالک کی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

اس وقت X، فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز "ترقی یافتہ میدانِ جنگ” بن گئے ہیں، جہاں "بیانیے” بنتے ہیں اور نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔ ان پلیٹ فارمز نے "روایتی خبر رساں اداروں” کی اجارہ داری کو کافی حد تک کمزور کر دیا ہے، جس سے "شراکتی ثقافت” اور "ثالثی کمیونٹیز” کا ظہور ہوا ہے۔ گراس روٹس سرگرمیوں، زمینی حقائق کی رپورٹنگ اور شہری صحافت فروغ پا چکی ہے، جو اب اسرائیل کے "روایتی میڈیا بیانیوں پر دیرینہ تسلط” کو فعال طور پر چیلنج کر رہی ہے، اور "عالمی معاملات کے حوالے سے اسٹیریو ٹائپ” تبدیل ہو رہے ہیں۔

اگرچہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی "فلسطینی بیانیوں” کو رکاوٹوں کا سامنا ہے، جن میں "کمیونٹی اسٹینڈرڈز” کے تحت مواد کو حذف کرنا یا تبدیل کرنا سب سے نمایاں ہے، اس کے باوجود فلسطینیوں کے لیے بین الاقوامی یکجہتی کو فروغ مل رہا ہے۔

اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں اور بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیوں کے نتیجے میں مغربی حمایت میں کمی کے دور رس مضمرات ہیں۔ موجودہ تبدیلیاں "غیر مشروط حمایت” سے ہٹ کر باہمی مفادات پر مبنی تعلق کی طرف منتقل ہو رہی ہیں۔ اب مغربی اتحادی تیزی سے اپنے قومی مفادات اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کو اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کی حمایت پر ترجیح دے رہے ہیں۔ مغربی حکومتوں کی جانب سے اسرائیلی حکام پر تنقید کرنے، پابندیوں کی دھمکی دینے، اور یہاں تک کہ پابندیاں عائد کرنے کی رضامندی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسرائیل کی دیرینہ "استثنیٰ کی دیوار” ٹوٹ رہی ہے۔

غرض یہ کہا جا سکتا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کا حملہ اور اس کے بعد کی حماس-اسرائیل جنگ صہیونیت کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئے ہیں، جس نے مغرب-اسرائیل تعلقات کی حرکیات کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ ساتھ ہی، مغربی ممالک میں عوامی رائے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، جو سوشل میڈیا پر موجود بڑی حد تک "غیر فلٹر شدہ بیانیوں” سے متاثر ہو کر، خاص طور پر نوجوان نسل میں، فلسطینیوں کے لیے ہمدردی اور انسانی حقوق کی پائمالیوں نے اسرائیل کی حمایت میں واضح کمی لائی ہے۔

2023–2025 کے واقعات اسرائیل اور اس کے روایتی مغربی اتحادیوں کے درمیان تعلقات میں ایک گہری اور ممکنہ طور پر ناقابلِ واپسی تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں۔

Read Previous

اسرائیل کے پروپیگنڈا ادارے “میمري” نے بلوچ علیحدگی پسند رہنما میر یار بلوچ کو اپنا مشیر مقرر کردیا

Read Next

ایران اسرائیل جنگ تیسرے روز کہاں کھڑی ہے؟

Leave a Reply