
افغانستان کے سابق وزیراعظم اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے کہا ہے کہ امریکہ کا موجودہ انخلا اور 1988 کے روسی انخلا میں زمین آسمان کا فرق ہے
روس نے انخلا سے ایک سال پہلے تیاری کر لی تھی اور اس وقت کی نجیب اللہ کی افغان حکومت کو اعتماد میں لے لیا تھا۔ وہ ترکی کے سرکاری نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کو انٹرویو دے رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سویت انخلا اور نیٹو کے انخلا میں فرق ہے۔جب سویت گیا تو اس نے اسکی تیاری سال پہلے سے کی ہوئی تھی اور محمد نجیب للہ کو اس بارے میں بتا دیا تھا موسکو نے نجیب للہ سے سفارش کی تھی کہ وہ حزب اختلاف سے بات چیت کریں اور انکے جانے سے پہلے کوئی پر امن حل نکالیں ، اور نظام میں تبدیلیوں کو نافذ کریں جسکو لوگ مان سکیں سویت نے دن کی روشنی کے دوران بہت ہی منظم طریقے سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں انہوں نے ازبکستان کا بارڈر کراس کیا۔ سویت کمانڈر کے 40 ویں بریگیڈ کا کہنا تھا کہ افغانستان پر حملہ تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی اور موسکو نے بھی اس پر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔اسکے مقابلے پر نیٹو کا نخلا بہت ہی غیر ذمدارانہ اور بے ترتیبی تھا۔ رات میں بلکل ایک چور کی طرح، انہوں نے جانے سے پہلے صدارتی محل یاآرمی کو بھی اطلاح نہیں دی تھی۔اگلے دن افغانوں کو یہ معلوم ہوا کہ انکے بین الاقوامی دوست انہیں چھوڑ کر جا چکے ہیں۔انہیں انکے حال پر چھوڑ کر۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس انخلا کے باعث ہونے والی خون ریزی اور بے ترتیبی کا ذمہ دار نیٹو ہی ہےاس سے یہ ظاہر ہوتا کہ امریکہ اس طرح کا انتشار پھیلانا اور جنگ جاری رکھنا چاہتا تھا۔
یہ تب ہونا چاہیے تھا جب امریکی فوج کی پوزیشن مضبوط تھی اور حالات پر اور کٹھ پتلی حکومت پر انکا کنٹرول تھا۔جسے افغانستان کے لوگوں نے مانا ہوا تھا۔انہیں خون ریزی کے بغیر ہی پر امن طریقے سے طاقت کی منتقلی پر راضی ہو جانا چا ہیے تھا پر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
ہم نے تین افراد پر مبنی وفد کو دوحہ بھیجا ہے تاکہ وہ بات چیت کے ذریعے اس بات کا حل نکال سکیں کے پچھلی انتظامیہ کی طرف سے چھوڑے ہوئے خلا کو کس طرح مکمل کیا جا سکے۔یہ خلا خطرناک ہو سکتا ہے۔اسی وجہ سے ہم نے دوحہ میں سینئر طالبان افسران سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔لیکن اب پلان میں تبدیلی آئی ہے کیونکہ سینئر طالبان افسران افغانستان آگئے ہیں۔اس لیے اب بات چیت کابل میں ہو گی۔ہمارا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ خون ریزی کے بغیر امن قائم کیا جائے اور ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم کی جائے جسے لوگ قبول کریں۔ بس ہم یہی جاہتے ہیں۔ہم نے کبھی بھی آنے والی حکومت میں فعال کردار نہیں مانگا۔ماضی میں ہارنے والی حکومت میں بھی ہم نے کوئی حصہ نہیں لیا ہمارا مقصد مکمل طور پر لوگوں کی مدد کرنا ہے۔
انکا افغانستان میں کوئی اثرو رسوخ نہیں ہے۔یہاں تک کہ میں انہیں یہاں آنے کا بھی کہہ دوں۔کیونکہ صدارتی محل انتظار کر رہا ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ انکے پاس اس جگہ کو لینے کی حامیت حاصل نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ خالی الفاظ ہی ہیں۔میں ان سے انکے حامیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ و ہ تنازعات پر اسرار نہ کریں۔اس طرح کے غیر زمہ دارانہ بیانات ایک طویل جنگ کی وجہ بن سکتے ہیں۔
ہم ماضی کی ناکام پالیسیوں سے بچنا چاہتے ہیں۔طالبان نے فوجی فتح حاصل کی ہے
کابل سمیت تمام صوبے اسکے کنٹرول میں ہے۔اب ہمیں اس افغانستان کی طرف قدم بڑھانے چاہیے جو جنگ سے بلکل پاک ہے۔ایک مضبوط مرکزی حکومت کے ساتھ جسے عوام کا سپورٹ بھی حاصل ہے۔جسے افغانستان کی خود مختار حکومت کے طور پر بین الاقوامی برادری نے قبول اور تسلیم کیا ہے۔ جو بھی بیانات اور وعدے طالبان نے کیے ہیں ۔اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک جامع حکومت کا عزم کیا ہے۔
یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس طرح کا پروپیگینڈا ٹھیک نہیں ہے۔اس پروپیگینڈا کو بنانے والے وہ لوگ ہیں جو افواجی اور معاشرتی طور پر پاکستان کے مخالف ہیں۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی جیت دراصل پاکستان کی جیت ہے ۔پاکستان کے وزیر اعظم نے یہ بات واضح الفاظ میں کہی ہے : کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے مخالفین افغانستان کو ہمارے خلاف استعمال کریں۔پاکستان نے یہ بات مانی ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی مدد کرنا وہ غلطی ہے جسے دوبارہ دہرایا نہیں جائے گا۔پاکستان اچھے ہمسائی تعلقات سے زیادہ اور کچھ نہیں چاہتا۔
طالبان نے کہا ہے کہ بین الاقوامی دہشتگردوں سے انکا کوئی تعلق نہیں ہوگااور نہ ہی وہ افغانستان کو ایک دہستگرد تنظیم کے تحت استعمال ہونے دیں گے ۔نہ ہی یہ علاقے پر کسی بھی قسم کی جنگ کی اجازت دیں گے۔
یہ سب ہمارے دشمنوں کی طرف سے پروپیگینڈا ہے۔وہ ایسا دکھانا چاہتے ہیں کہ حالات نارمل نہیں ہیں۔ گویا افغان معمول کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے سے ڈرتے ہیں۔یہ سب صرف پروپیگینڈا اور مبالغہ آرائی ہے۔اصلیت میں، جو لوگ ڈر رہے ہیں انکی تعدادا بہت ہی تھوڑی ہے۔آپ ان لوگوں کو اپنے ہاتھوں پر گن سکتے ہیں۔وہ جان بوجھ کر چیزوں کوغلط اور خوف زدہ بنا رہے ہیں۔اور وہ مغربی ممالک میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ سیاسی پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اگر آپ ملک میں ہر ایک شخص سے پوچھیں گے، تو وہ آپکو یہ بتائیں گے کو وہ 20 سال کے حالاتوں سے زیادہ موجودہ صورتحال کو ترجیح دیں گے۔
ماضی ہمارے پیچھے رہ گیا ۔ ہم ایک مضبوط مرکزی حکومت کے ساتھ ایک نئے افغانستان کی طرف گامزن ہیں۔ہر کوئی اس مقصد کو حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے۔افغانستان کو ماضی سے نکالنے کے لیے عام لوگوں کو آگے آنا چاہیے۔