turky-urdu-logo

یو کرین جنگی بحران اور ترکی

تحریر:نعیمہ احمد مہجور

جب کسی یورپی ملک میں جنگ کے بادل منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں تو حسب روایت تمام یورپ اور امریکہ متحد ہوکر اس کو ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس کسی مسلم ملک پر چڑھائی کرنے کا جو بھی موقعہ آج تک فراہم ہوا ہے تو اُس وقت اقوام متحدہ یا غیر یوروپی عالمی برادری کے خدشات کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی ہے۔

صدام حسین کے خلاف جنگی جنون کو پیدا کرنا، شام کو زمین بوس کرنا یا افغانستان پر کار پیٹ بمباری سے لاکھوں لوگوں کو پہاڑوں کے نیچے جب دفنانا تھا تو ان کو روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں یا ناکام بنادی گئیں ہیں۔

آج یورپ کے دوسرے بڑے ملک یوکرین پر روس اور یورپی ملکوں کے مابین نہ صرف سرد جنگ شروع ہوچکی ہے بلکہ دونوں فریقوں نے اسلحہ اور بھاری جنگی سازو سامان کے ساتھ ساتھ اپنے لاکھوں افواج کو یوکرین کے دفاع کے لیے تیار کر رکھا ہے۔

روس کے دو لاکھ سے زاید فوجی اس وقت یوکرین کی سرحد کے پاس کھڑے ہیں جبکہ امریکہ کے ساڑھے آٹھ ہزار فوجی اور برطانیہ کے فوجی اور لڑاکا طیارے روس کے حملے کو روکنے کی تاک میں بیٹھے ہیں۔

روس اور یوکرین کی اس تکرار کے پس منظر میں ترکی بُری طرح پھنس چکا ہے۔ ترکی ان دونوں ملکوں کے قریب ہے البتہ قریبی تعلقات کے باوجود روس ترکی پر مکمل طور پر بھروسہ نہیں کرتا جس کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔

ایک یہ کہ روس نے جب 2014 میں یوکرین کے علاقے کرمیا پر قبضہ کرلیا، ترکی نے اس کی شدید مخالفت کی تھی اور اسے کسی ملک کی سالمیت پر حملہ قرار دیا تھا۔

دوسرا، ترکی یورپی ملکوں کے دفاعی اتحاد نیٹو کا اہم ترین رُکن ہے جو اس کی دفاعی پالیسی یا یورپی ملکوں میں کسی بھی فوجی یا سیاسی مداخلت کے خلاف کاروائی کی حمایت کرتا ہے۔

تیسرا گزشتہ برس ترکی نے یوکرین کے ساتھ ڈرون بیرک تار TB2 فراہم کرنے کا ایک بڑا معاہدہ کیا ہے جس کے بارے میں روس کو خدشہ ہے کہ وہ ان ڈرونز کو ڈنباس میں استعمال کرے گا جہاں روسی حمایت یافتہ شدت پسند یوکرین کی حکومت کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے یوکرین اور روس کے بیچ قضیہ کو ختم کرنے میں ثالث کا کردار نبھانے کی دوبارہ پیش کش کی ہے جس کو گزشتہ برس کی طرح یوکرین نے خیر مقدم کیا ہے مگر روس کی جانب سے اس پر منفی ردعمل سامنے آیا ہے حالانکہ روس اور ترکی کے مابین گہرے سیاسی روابط کے ساتھ ساتھ تجارتی تعلقات بھی ہیں۔

بعض مبصرین کے مطابق ترکی کو اُس وقت روس کے بارے میں شکوک پیدا ہوئے جب اُس نے کھل کر شام میں فوجی مداخلت کی اور ایک طرح سے وہی پالیسی اپنائی جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام کو تباہ کرنے کے لئے شروع کی تھی۔

ترکی نے اس پر اپنی برہمی کا اظہار کیا تھا جس کا روس نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

یوکرین میں اگر روس اور نیٹو کے افواج کے دوران کوئی بھی معرکہ آرائی ہوتی ہے اُس کی زد میں گوکہ پہلے پولینڈ، چیک اور رومانیہ براہ راست متاثر ہوسکتے ہیں البتہ بحیرہ اسود کی وجہ سے ترکی پر گہرا اثر مرتب ہوگا جو اس ملک کی ابتر معاشی حالت کو مزید متاثر کر سکتا ہے۔

یوکرین کے موجودہ حالات پر نیٹو ممالک میں گہرا تضاد پایا جاتا ہے جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نیٹو کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کی پالیسی سے شروع ہوا ہے اور جس کو موجودہ صدر جو بائیڈین سنبھالنے کی کوشش میں ہیں۔

جو بائیڈین کی جانب سے روس کو دی جانے والی حالیہ وارننگ سے بھی سفارتی تعلقات بگڑ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ یوکرین پر حملہ کرنے کے ردعمل میں روس پر ایسی سخت پابندیاں عائد کی جائینگی کہ جس کی قیمت چکانا روس کے لئے انتہائی بھاری ہوگا۔

اسی دوران امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن یورپ میں سفارت کاری سے جنگی حالات کو سدھارنے کی کوشش میں تھے کہ بائیڈین کی دھمکی نے اُن کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔

لندن میں ایک تھنک ٹینک سے وابستہ سیاسی مبصر دانش معروفیوف کہتے ہیں کہ “روس یوکرین پر اپنا اثر رسوخ قائم رکھنا چاہتا ہے اسی لئے وہ یوکرین کو نیٹو کا رکُن بننے سے روکنے کی سعی کر رہا ہے، اصل میں روس مشرقی یورپ کو واپس حاصل کرنے کے چکر میں ہیں جہاں نیٹو کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور جو پوتین اپنے لئے خطرہ تصور کر رہے ہیں۔ کرمیا کے بعد وہ یوکرین کے ڈن باس پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ پوتین چین کی سلامی سلایسنگ پالیسی اپنا کر یوکرین کو واپس اپنے دائرے میں لانے کی مہم پر گامزن ہیں، برطانیہ کی بریگزٹ کے بعد نیٹو کا کردار اتنا موثر نہیں رہا ہے، جرمنی میں نیٹو کو لے کر شدید خدشات ہیں اور ترکی غیر جانبدار رہ کرمحض جنگ کو روکنے کی کوشش میں ہے تاکہ آبنائے باسفورس میں جاری تجارتی سرگرمیاں متاثر نہ ہوسکیں”۔

واضح رہے، یوکرین سن اکیانوے میں آزاد مملکت بن گیا تھا جب سابق سویٹ یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔

سن چورانوے کے واشنگٹن بداپیسٹ میمورنڈنم کے تحت یوکرین کو اپنا میزائیل سسٹم اور جوہری ہتھیار ختم کرکے تقریبا انیس سو جوہری بم روس کو واپس دینے پڑے تھے جس کے بعد ملک کی دفاعی پالیسی ہمیشہ کمزور رہی ہے اور روسی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی اس میں اہلیت نہیں ہے۔

اس معاہدے کے تحت امریکہ اور مغربی ممالک یوکرین کا دفاع کرنے کے پابند بتائے جاتے ہیں مگر اتحاد کا مقصد یورپ میں جنگ کو روکنا ہے۔

جنگ ہونے کی صورت میں یورپ میں قدرتی گیس کی سپلائی برُی طرح متاثر ہوگی اور اپنی آبادی کو شاید اُن حالات سے بچانا مشکل ہوگا جن حالات سے اس وقت مسلم ممالک کے کروڑوں عوام اتحاد کی پے در پے چڑھائی کے باعث گزر رہے ہیں۔

Read Previous

سابق برطانوی فٹ بالر مائیکل اوون 3 روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے

Read Next

فیس بک نے میٹا ورس کیلئے سپر کمپیوٹر تیار کرلیا

Leave a Reply