تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خان
ایک بات متواتر کرتا رہا ہوں کہ مغرب کے عطا کۓ ہوۓ دو عظیم سیاسی تصورات ، ریاست اور جمہوریت اختتام پذیر ہونے کو ہیں۔ ناکام اس لۓ نہیں کہہ رہا کہ یہ کبھی کامیاب تھے ہی نہیں۔ اپنی ابتدا سے ہی یہ دونوں نظریات مغرب کی ‘مفاداتی جنگ’ کی بھینٹ چڑھ گۓ، اور خود مغرب نے ان دونوں نظریات کو ‘ذاتی مفاد’ جو زیادہ تر ‘معاشی’ تھا کی خاطر قربان کردیا۔ ان دونوں نظریات کے خاتمہ کی نوید ہر طرف دکھائی دیتی ہے۔ خود مغربی ممالک اندرونی خلفشار اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔ لیکن مغرب آج بھی اپنے معاشی مفاد کو ہر نظریہ پر فوقیت دیتا ہے، کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تحفظ اور سلامتی یعنی زندہ رہنا اور پھر جستجو کرتے رہنے میں ہی بقا ہے۔
لیکن ایک قوم ایسی بھی ہے جو فنا ہونے کو تیار ہے لیکن اپنے نظریات اور تصورات کی موت کے لۓ تیار نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی مادی زندگی کی اتنی قیمت نہیں جتنی قیمت اُن کے نظریات کی ہے۔ لیکن اس کے لۓ سب سے بڑی قربانی یہ دینی پڑتی ہے کہ تاریخ کے صفحے قلم اور سیاہی سے نہیں اپنے خون سے سُرخ کرنے ہوتے ہیں۔ ظالم تاریخ کے صفحے سیاہی سے کالے کرتے ہیں، مظلوم تاریخ کے صفحے اپنے خون سے روشن کرتے ہیں۔ سیاہ تاریخ مٹ جاتی ہے، روشن تاریخ زندہ رہتی ہے۔ ایسی ہی تاریخ جو زندہ رہے گی وہ فلسطین کے غیور عوام اپنے خون سے لکھ رہے ہیں۔ تاریخ کا رُخ موڑنے کے لۓ زندہ رہنا ضروری نہیں، مرنا بھی ضروری ہے، بلکہ مرنا ہی ضروری ہے۔ شہید اس لۓ زندہ رہتا ہے کہ شہادت کی آرزو والے زندہ رہتے ہیں، اُن میں سے پھر اور مرکر اس شہادت کی آرزو کی شمع کو جلاۓ رکھتے ہیں ، یہ سلسلہ رکتا نہیں ، جان باقی نہیں رہتی، جس کے لۓ جان دی وہ آن وہ شان باقی رہتی ہے۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی تو کوئی بات نہیں
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ مغرب کے یہ دونوں نظریات کہاں دفن ہونے جارہے ہیں ، ان کا زندہ قبرستان کہاں ہے۔ سرزمین فلسطین ان نظریات کا مدفن ہے۔ امریکہ میں اپنے قیام کے دوران کئی بار ایسی ڈس کشنز میں شرکت کا موقع ملا جہاں فلسطین کے ایشو پر بات ہوئی۔ امریکی سکالرز نےاس بات پر بڑی فاخراِنہ طبیعت پائی ہے اور وہ بڑے نازاں ہوتے کہ فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لۓ اُنہوں نے ‘انصاف’ پر مبنی حل تجویز کۓ ہیں، جیسے ‘دو ریاستوں کا حل۔’ جن میں یہودیوں کے لۓ تو ایک ریاست اسرائیل کے نام سے پہلے سے قائم ہے، اور غزہ اور مغربی کنارے پر مشتمل باقی ماندہ حصہ پر ایک آزاد فلسطین کی ریاست قائم کرکے دو ریاستں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ امن اور آشتی کے ساتھ مشرق وسطی میں ایک نۓ دور کا آغاز کریں، اس ‘دو ریاستی حل’ کے حامی امریکہ میں ہر سطح پر پاۓ جاتے ہیں، اکیڈیمیا، صحافت، معیشت، سیاست ، خصوصاً وہ غیر حکومتی ادارے جو حکومتی پالیسی پر اثرا انداز ہوسکتے ہیں۔ ان میں بعض بڑے اہم افراد جیسے سب سے بزرگ ماضی کے امریکی صدر جمی کارٹر نمایاں ہیں، باراک اوباما بھی اُن کے ہم خیال لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ اُس خطہ میں جہاں آج اسرائیل اپنا غاصبانہ قبضہ کۓ ہوۓ ہے کیوں ‘دو ریاستی حل’ کی بات کرتے ہیں؟ ایک ریاست کی بات کیوں نہیں گرتے؟ اس کی وجہ وہ ہی ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہے کہ ان کے دونوں نظریات یعنی ریاست اور جمہورت دم توڑ رہے ہیں۔
پہلی وجہ تو یہ یہودیوں کے فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضہ کو جائزیت اور جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں اور وہ بھی اس انداز سے کہ اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس کر قبضہ کرلے اور ایک موقع پر آپ ہی اُس کے اس قبضہ کو جائز اور حق بجانب سمجھ کر دستبردار ہوجائیں تو باقی لوگوں کو کیا کہ وہ آپ کے حق کے لۓ کھڑے ہوں جبکہ آپ خود اپنے حق کے لۓ نہیں کھڑے۔
جب جدید ریاست مغرب میں پروان چڑھ رہی تھی تو سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ یورپ میں چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں اور اسی طرح کئی طاقتور اور کمزور تھیں۔ آۓ دن جنگیں ہوتی رہتیں، طاقتور ریاستیں طاقت کے بل بوتے پر کمزور ریاستوں کے علاقوں پر قابض ہوجاتیں، ان کی اس آپس کی جنگوں کا سب سے زیادہ فائدہ سلطنت عثمانیہ کو ہوا جو ایک ریاست نہیں بلکہ تین براعظموں پر مشتمل ایک سلطنت تھی۔ صلیبی جنگوں میں یورپ کے ممالک تُرکوں سے پے در پے شکستوں سے دوچار ہوۓ۔
سترہویں صدی کے عین وسط میں ، مغربی ریاستوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جسے ‘ویسٹ فیلیا معاہدہ’ کہا جاتا ہے۔ یہ تاریخ میں ایسا پہلا معاہدہ ہے جس کی رو سے ‘جدید مغربی ریاست ‘ کی داغ بیل ڈالی گئی اور ریاست کے بارے چند ‘بُنیادی اصول’ وضع کۓ گۓ ۔ جس میں سب سے زیادہ اہم ‘ ریاستی اقتدار اعلی’ کا اصول تھا جس میں مغربی ریاستوں نے پہلی بار یہ تسلیم کیا کہ وہ آئندہ ایک دوسرے کی ‘علاقائی وحدت’ یعنی ایک دوسرے کی ‘جغرافیائی سرحدوں کے احترام’ کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور آئندہ اپنے عمل سے اسے یقینی بھی بنائیں گے۔ سادہ لفظوں میں ریاست خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، کمزور ہو طاقتور ، امیر ہو غریب اپنے مخصوص علاقے میں مُکمل ‘خود مختار اور آزاد’ ہوگی اور کوئی دوسری ریاست جنگ کے ذریعے کسی دوسری ریاست کے علاقوں پر قبضہ یا تسلط نہیں کرسکے گی۔ یعنی طاقتور ریاستوں کو اس بات کا پابند کردیا گیا کہ وہ صرف اس بُنیاد پر کہ وہ ایک بڑی فوجی قوت ہیں کسی اپنے سے کمزور ریاست کو سرنگوں نہیں کرسکیں گی۔
افسوس کی بات یہ کہ تاریخ اور سیاسیات کی کتابوں میں اور آکسفورڈ اور ہارورڈ میں پڑھانے کے لۓ تو اب کہا گیا کہ چھوٹی بڑی سب ریاستیں برابر ہیں، پوری مغربی دُنیا کے فلاسفرز باقی دُنیا کو برابری، مساوات، جمہوریت، انسانی حقوق، آزادی، اور قانون سب کے لۓ جیسے خوش کن نعرے دے رہے تھے اور کتابوں کے انبار کے انبار لگا رہے تھے لیکن مغرب نے یہ نظریات اپنے ہاں پنپنے تو دیے لیکن عملی طور پر ان نظریات کی آبیاری تو دور کی بات بلکہ ان کے برعکس اقدامات کۓ، اپنے لوگوں کو برابری اور آزادی کا درس دینے والے باقی دنُیا کو تقسیم کرنے اور اُن ہر جبر اور طاقت سے حکومت کرنے کے نہ صرف منصوبے بنارہے تھے بلکہ ایک نئے ‘نو آبادیاتی نظام’ کی داغ بیل ڈال کر پوری دُنیا کو اپنا غلام بنا چُکے تھے، آزادی کے نام پر غلامی کا کاروبار جاری تھا اور اب تک جاری ہے۔
‘ویسٹ فیلیا معاہدے’ کی دھجیاں خود مغرب نے اُڑا دیں اور دُنیا پر غاصبانہ قبضے کۓ۔ اسی طرح کا ایک قبضہ فلسطین کی سرزمین پر کیا گیا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد ساری دُنیا سے یہودیوں کو لاکر آباد کیا گیا اور فلسطینیوں کو اُنکے علاقوں سے بے دخل کرکے اُن علاقوں کے عین دل میں اسرائیل کی ناجائز ریاست کو قائم کیا گیا۔ اب مغربی سکالرز اُس غاصبانہ قبضہ کو دُنیا سے جائز کروانا چاہتے ہیں کہ وہ ایک کمزور اور لاغر فلسطینی ریاست بھی قائم کردیں جس کی حیثیت ایک میونسپیلٹی سے بھی زیادہ نہ ہو لیکن دُنیا اسرائیل کو ایک جائز آزاد ریاست کے طور پر قبول کرلے۔
مغرب نے اپنے بناۓ ہوۓ اصولوں کی نفی کی یعنی طاقت کے ذریعہ قبضہ نامنظور کو اب وہ طاقت کے ذریعے ہی دُنیا سے منوانا چاہتے ہیں۔ اور ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اُنہیں آزادی اور انصاف کا چمپئین بھی تسلیم کیا جاۓ۔ ڈاکٹر کلیم عاجز نے کیا عاجز ہوکر کہا کہ۔
میرے ہی لہو پہ گُزر اوقات کرو ہو
مُجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
ایک وجہ تو اسرائیل کے ناجائز قبضہ کو جائزیت فراہم کرنا ہے۔ اور دوسری بڑی وجہ اُن کی نام نہاد جمہوریت پر پڑنے والی شدید چوٹ ہے۔ جمہوریت ایک بُنیادی اصول پر کھڑی ہے، وہ اصول ہے ‘اکثریت کی مرضی سے اکثریت کی حکومت۔’ یہ اصول مشہور برطانوی مفکر جان لاک نے اپنے معروف مضامین جو اُس نے ‘حکومت’ پر لکھے اُن میں ‘عوامی رضامندی’ اور ‘اکثریتی حکومت’ کی تھیوریوں کو بیان کرتے ہوۓ روشنی ڈالی۔ آج مغربی جمہوریت جان لاک کے ان ہی نظریات پر کھڑی ہے۔ مگر اکثریت کی حکومت ‘ کے نظریہ کی عمارت ‘ایک انسان ایک ووٹ’ کے اصول پر کھڑی ہے۔ اسرائیل چونکہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں پر مشتمل ریاست ہے اور آج بھی فلسطینیوں اور عربوں کی ایک کثیر تعداد وہاں آباد ہے ، اور وہ علاقے جو ماضی میں اسرائیل نے اس لۓ خالی کۓ کہ وہاں کی اکثریت عرب آبادی پر مشتمل تھی تو اگر اُن کو بھی دوبارہ اسرائیل میں شامل کرلیں، پھر چند سال بعد جو عربوں کی آبادی بڑھنے کی شرح ہے، اور جس انداز سے اب یہودی اُن اسرائیلی بستیوں میں آباد ہونے سے گُریزاں ہیں خواہ اُنہیں کتنی بھی اعلی ترغیبات ہی کیوں نہ دی جائیں، یہ امکان موجود ہے کہ یہودی اکثریت جلد ہی اقلیت میں تبدیل ہوجاۓ۔ اسی لۓ اسرائیل اونچی اونچی دیواریں کھڑی کرکے فلسطین پہ قابض علاقوں کی تقسیم اس طرح سے کۓ ہوۓ ہے کہ اُن کی مصنوعی اکثریت قائم رہے۔ امریکی اور یورپی سکالرز جو جمہوریت اور برابری کے چمپئین بنتے ہیں کہ ایک ریاست کی بجاۓ دو ریاستوں کی بات کی جاۓ، اگر ایک ریاست خواہ وہ اسرائیل کے نام سی ہی ہو، جیسے کہ ہے، اس ریاست میں جمہوریت کی رو سے ‘ ایک انسان ایک ووٹ ‘ کا حق اگر فلسطینیوں کو بھی دینا پڑ گیا تو آگے چل کر یہودی ریاست جمہوری انداز سے دوبارہ فلسطینی ریاست بن سکتی ہے ، اور پھر ‘اکثریت’ فیصلہ کرے گی کہ اُس ریاست کا نیا نام اب جہاں یہودی اقلیت میں ہوں گے، اسرائیل ہی رہنے دیا جاۓ کہ کوئی اور نام رکھا جاۓ۔ اسی بنا پر وہ ‘دو ریاستی حل’ کی بات کرتے ہیں۔ انہیں فلسطینیوں سے ہمدردی یا مُحبت کی مرروڑ نہیں اُٹھتی، اوّل و آخر اُن کا مقصد اسرائیلی یہودیوں کی آزادی کا تحفظ اور بقا ہے۔
اس امریکی پالیسی کو عربوں نے بھی تسلیم کرلیا ہے مگر چند تبدیلیوں کے ساتھ، گزشتہ نصف صدی سے مشرق وسطی میں ‘جاری امن عمل’ یعنی پیس پراسیسں کا جائزہ لیا جاۓ تو شاہ سلمان سے پہلے سعودی بادشاہ عبداللہ وہ شخصیت تھے جنہوں نے آخری ‘امن منصوبہ پیش کیا۔’ جس کے تحت اسرائیل کو بھی ایک علیحدہ آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرنے کی بات ایک شرط کے ساتھ کی گئی کہ ‘یروشلم’ جہاں بیت المقدس ہے کی حیثیت کم و بیش اُسی نوعیت کی ہوگی جس طرح کی سیاسی اور مذہبی حیثیت عیسائی دُنیا میں ویٹی کن سٹی کی ہے جو کہ کیتھولک عیسائی دُنیا کا مرکز ہے۔ لیکن امریکہ سمیت کوئی مُلک ابھی تک اسرائیل کو بادشاہ عبداللہ کے امن منصوبے پر قائل نہیں کرسکا، ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ نے ہر قسم کی اخلاقیات کا جنازہ نکالتے ہوۓ ایک ایسے فتنہ کی بُنیاد رکھی جس کی جرآت اس سے پہلے کسی امریکی صدر کو نہیں ہوئی تھی، یروشلم کی متنازعہ حیثیت ہونے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے نا صرف یروشلم کو اسرائیل کا دارلخلافہ تسلیم کیا بلکہ امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے یروشلم مُنتقل کرنے کا اعلان بھی کیا۔
دو ریاستی حل میں جو سب سے بڑی قباحت مُجھے دکھائی دیتی ہے وہ اسرائیل کا جارحانہ رویہ ہے، اور ساتھ ساتھ مغرب کی بے حسی ہے۔ اگر مغرب اب تک ویسٹ فیلیا معاہدے کی دھجیاں بکھیرتا آرہا ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اسرائیل جیسی ایٹمی طاقت کے مقابلے میں ایک میونسپیلٹی سے بھی کمزور فلسطینی ریاست کو اسرائیلی جارحیت سے بچا پاۓ گا؟ مُجھے نہیں لگتا۔
میرے نزدیک اس مسئلہ کا اس سے بہتر کوئی اور حل نہیں ہوسکتا کہ ایک مضبوط، خود مختار ، اور خوشحال فلسطینی ریاست بنائی جاۓ جس کا دارالخلافہ یروشلم ہو، اور بیت ال مقدس پر بھی فلسطین کا پرچم لہرایا جاۓ، عیسائی اور یہودیوں کے لۓ بھی بیت القدس کے دروازے کُھلے ہوں تو پھر اس خطے میں ساتھ ساتھ اسرائیل اور فلسطین کی دو پُرامن ریاستوں کے قیام کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ یہ ہی وہ حل ہے جو بادشاہ عبداللہ نے پیش کیا تھا۔
لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی ضمیر کو اس حل کے لۓ کیسے آمادہ کیا جاۓ جبکہ طاقت کا توازن مغرب اور اسرائیل کے حق میں ہے؟ ایک بات تو واضح ہے کہ مغرب کو اب اس شدید مخمصہ کا سامنا ہیے کہ وہ اپنی درس گاہوں اور جامعات میں برابری، جمہوریت، اور انسانی حقوق کا درس دیتا ہے مگر عملی طور پر اُن کی حکومتیں صرف ان نظریات کو پامال ہی نہیں کرتیں بلکہ اسرائیل جیسی جارحانہ ریاست کے پیچھے بھی کھڑی ہیں جو کسی قانون بینالاقوام کو خاطر میں نہیں لاتا ، اگر کوئی پتھر پھینک دے تو اُس کا جواب وہ انسانوں کی بستیاں اُجاڑکر اور اُنہیں کھنڈروں میں تبدیل کرکے دیتا ہے۔ اُن راکٹوں کی بدلے جس سے اگر کوئی گڑھا پڑ جاۓ تو ممکن ہے مگر بدلے میں وہ ایسی بمباری کرتا ہے کہ شہروں کو انسانوں سمیت ملیا میٹ کردیتا ہے۔ مغرب کے اپنے لوگوں میں اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کے خلاف شدید ردعمل کا امکان ہے۔ مغرب کا میڈیا چاہے جتنی جانبداری کرلے لیکن فلسطینیوں کا خون پُکار پُکار کر اسرائیلیوں کے ُظلم کی داستان سُناتا ہے۔ امیر مینائی نے کہا تھا۔
قریب ہے یارو روز محشر، چُھپے گا کُشتوں کا خون کیونکر؟
جو چُپ رہے گی زبان خنجر، لہو پُکارے گا آستیں کا
فلسطین کے مسئلہ کے حل کا سب سے پہلا اصول تو یہ ہے کہ یہ مسئلہ زندہ رکھا جاۓ۔ جانیں دیۓ بغیر یہ مسئلہ زندہ نہیں رکھ سکتے۔ میں ہمیشہ فلسطینیوں کی جدوجہد کا حامی رہا ہوں، یہ وہ جدوجہد ہے جسے اسرائیل اور مغرب دونوں ‘اسلامی جہاد’ کہتے ہیں، مزے کی بات یہ کہ اب یہ جس کوشش اور جدوجہد کو ‘اسلامی جہاد ‘ یعنی اپنے تئیں اسلامی دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں ، اگر یہ ہی سب کُچھ امریکہ کی ‘کالونی ریاستوں’ نے برطانیہ کے خلاف نہ کیا ہوتا تو امریکہ کو آزاد ہوۓ سوا دوسو سال سے زیادہ نہ ہوۓ ہوتے۔ امریکہ نے اپنی آزادی کی جنگ انہیں اصولوں پر قائم رہ کر لڑی جو آج نیل کے ساحل سے لے تابخاک کاشغر تک مُسلمان لڑ رہے ہیں۔ جب کوئی قوم اپنی آزادی کے لۓ حملہ آور قابض قوتوں کے خلاف برسر پیکار ہوتی ہے تو وہ فساد آیا دہشت گردی نہیں، آزادی کی جنگ ہوتی ہے۔ اور کمزورں کی آزادی کے لۓ جنگ تو اس سے زیادہ نہیں ہوتی کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کُھلتے ہیں غلاموں پہ اسرار شہنشاہی
اے طائرلاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس ِرزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولی
ہو جس کی فقیری میں بوۓ اسد اللّہی
آئین جوانمردی ، حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
ہمیں آزادی کی اس جنگ میں اپنے فلسطینی بھائیوں کا ساتھ دینا چاہۓ، دُنیا میں خواہ کہیں بھی ، جو بھی انسان اپنی آزادی کے لۓ سینہ سپر ہیں اُن کے سینوں کو سلام ، آزادی کے لۓ جو سر کٹے ہیں ، اُن سروں کو سلام، چیچنیا سے لے کر کشمیر تک ہر اُس آنکھ کو جو آزادی کے لۓ نم ہے ، سلام ، سلام۔
اے راہ حق کےشہیدو، وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
