turky-urdu-logo

ترکیہ کا پہلا تیرتا ہوا قدرتی گیس پلیٹ فارم ‘عثمان غازی’ بحیرہ اسود روانہ، روزانہ 10.5 ملین کیوبک میٹر گیس پراسیس کرے گا

ترکیہ نے توانائی کے شعبے میں ایک اہم سنگِ میل عبور کرتے ہوئے اپنے پہلے تیرتے ہوئے قدرتی گیس پلیٹ فارم ‘عثمان غازی’ کو بحیرہ اسود کی جانب روانہ کر دیا ہے۔

اس تاریخی موقع کو یادگار بنانے کے لیے اس پلیٹ فارم کی روانگی 29 مئی کو عمل میں لائی گئی، جو وہی دن ہے جب سلطنتِ عثمانیہ نے قسطنطنیہ فتح کیا تھا۔

استنبول کے تاریخی دولمابہچے پیلس میں منعقدہ تقریب میں صدر رجب طیب ایردوان نے ‘عثمان غازی’ کی روانگی کا اعلان کیا۔ اس موقع پر وزیرِ توانائی، الپ ارسلان بائراکتار، صدارتی مواصلاتی ڈائریکٹر، فخرالدین آلتن اور دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔

صدر ایردوان نے اپنے خطاب میں کہا کہ، ترکیہ اب صرف توانائی درآمد کرنے والا ملک نہیں رہا، بلکہ وہ توانائی دریافت کر کے دنیا کو برآمد کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کر چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ، بحیرہ اسود میں 75 ارب مکعب میٹر گیس کی دریافت ترکیہ کے عزم اور مؤثر منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔

‘عثمان غازی’ پلیٹ فارم تکنیکی لحاظ سے انتہائی جدید ہے۔ یہ 298.5 میٹر طویل، 56 میٹر چوڑا اور 29.5 میٹر گہرا ہے۔ اس کی یومیہ گیس پراسیسنگ کی صلاحیت 10.5 ملین مکعب میٹر ہے، جبکہ یہ روزانہ 10 ملین مکعب میٹر گیس زمین تک منتقل کر سکے گا۔ یہ پلیٹ فارم آئندہ 20 برس تک خدمات انجام دے گا اور اس کی مکمل آپریشنل سرگرمیاں 2026 کے وسط تک شروع ہو جائیں گی۔

یہ تیرتا ہوا پلیٹ فارم استنبول کے آہرکاپی اینکرج ایریا سے روانہ ہوا ہے اور تقریبا11 گھنٹے کے سفر کے بعد یکم جون کو فیلیوس بندرگاہ پر پہنچے گا۔

‘عثمان غازی’ کی شمولیت سے ترکیہ کا توانائی بیڑا مزید مضبوط ہوا ہے، جس میں اس سے قبل فاطح، یاووز، قانونی، عبدالحمید ہان، اوروچ رئیس اور بارباروس حیدرالدین پاشا جیسے جدید بحری جہاز شامل ہیں۔

ترکیہ نے اس پیش رفت کے ذریعے فتح قسطنطنیہ کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے توانائی کے میدان میں خود کفالت کی جانب ایک اور مضبوط قدم بڑھایا ہے، جو مستقبل میں اسے عالمی توانائی کے نقشے پر ایک اہم مقام دلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

Read Previous

فتح استنبول کی 572 ویں سالگرہ: ترکیہ کو اب کسی کے دروازے پر انتظار نہیں کرنا پڑتا بلکہ دوسرے اس کے دروازے پر آتے ہیں، صدر ایردوان

Read Next

29مئی 1453ء یوم فتح استنبول!

Leave a Reply