turky-urdu-logo

"ترکیہ میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ شناسی کی روایت”

ڈاکٹر عالم خان

ڈاکٹر محمد حمید اللہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے علمی و دینی حلقوں میں نہایت قدر ومنزلت کی حامل شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی پوری زندگی دین کی خدمت کے لیے وقف رکھی اور ہمہ وقت اشاعت اسلام میں اپنی تمام توانائیاں صرف کرتے رہے یہی وجہ ہے کہ آج ان کا نام ایک معزز ومحترم ہستی کے طور پر لیا جاتا ہے جو اپنی ذات میں روشن درخشاں آفتاب عالم تاب تھے جس سے لاکھوں تشنگان علم نے فیض حاصل کیا۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں داخلے کے بعد جن اصحاب علم کا میں نے سب سے زیادہ تذکرہ سنا ان میں نمایاں نامی گرامی ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم کا تھا۔ مجھے طالب علمی سے اس بحر العلم کو کنگھالنے اور اس سے موتی چننے کا شوق تھا لیکن اپنی دیگر نصابی مصروفیات کی وجہ سے میں ڈاکٹر صاحب کی تصانیف پر خاطر خواہ توجہ مرکوز نہ رکھ سکا تاہم بعد ازاں خطبات بہاولپور اور صحیفہ ہمام بن منبہ کے مقدمے کے مطالعے نے مجھ پر اپنے عہد وما بعد کی اس عظیم علمی ہستی کی فکر ودانش منکشف کی اور میں اس درجہ متاثر ہوا کہ یکے بعد دیگرے ڈاکٹر کے جملہ تصانیف کے مطالعے کی سعادت حاصل کی۔
نومبر 2013 میں میری تعیناتی ترکیہ کے گوموشان یونیورسٹی میں بحثیت استاد ہوئی تو اکثر علمی مجالس میں علامہ اقبال، سید مودودی اور ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا ذکر کثرت سے سنتا تھا۔ ایک پاکستانی کی حیثیت سے میرے اندر تفاخر پیدا ہونا ایک فطری بات تھی اس لیے جب ان کا تذکرہ ہوتا تھا تو خوشی اور فخر کی ملی جلی کیفیت محسوس ہوتی تھی۔
ترک قوم کا ڈاکٹر محمد حمید اللہ سے محبت، عقیدت اور نسبت کے کئی اسباب ہیں ان میں سے ایک سیکولر ترکیہ میں مطالعہ اسلام کی ابتداء اور تعارف میں ان کا کردار ہے۔ جب ترکیہ میں اسلامی علوم پر عائد پابندی اٹھائی گئی اور 1949 میں انقرہ یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات کا افتتاح ہوا تو نصاب بنانے اور درس وتدریس کے لیے جن تین غیر ملکی اہل علم کی خدمات حاصل کی گئیں ڈاکٹر محمد حمید اللہ ان میں سے ایک تھے دیگر اہل علم کے اسمائے گرامی محمد طیب اور محمد تانجی تھے یہ تینوں حضرات انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے اولین اساتذہ تھیں اس لیے ترکیہ میں ان کے شاگردوں اور عقیدت مندوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ عظیم مفکر مبلغ اور معلم ومربی تھے دنیا کے ہر گوشے میں آپ کے تلامذہ موجود ہیں جو آپ کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ آپ تدریس کے ساتھ ساتھ طلباء کے کردار سازی پر بہت توجہ دیتے تھے اور اپنے شاگردوں کی تربیت اور باطل نظریات سے تحفظ میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔
ترکیہ کے علمی منظر نامے پر موجود بہت سی شخصیات آپ سے نسبت پر فخر محسوس کرتی ہیں اور آپ کی علمیت کا برملا اظہار کرتی ہیں ان شخصیات میں سے ایک پروفیسر ڈاکٹر احسان ثریا صاحب ہیں جو ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے بہت قریب رہ چکے ہیں اور ان سے بخوبی فیض یافتہ ہیں۔ ایک کانفرنس میں انہوں نے نہ صرف اس کا اعتراف کیا بلکہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے ایک ذاتی تجربے کا حوالہ دیا کہ پی ایچ ڈی کی تعلیم کے دوران پیرس میں انہیں ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو ایک مثالی استاد اور مربی کی حثیت سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پروفیسر احسان صاحب فرماتے تھے کہ ان دنوں پیرس میں مشہور مستشرق پروفیسر لویس بھی قیام پذیر تھا جو امام احمد بن حنبل اور امام غزالی کتب اور مناہج کا ماہر سمجھا جاتا تھا مسلمان طلبا جب ان کے درس میں شرکت کے لیے جاتے تو ڈاکٹر محمد حمید اللہ بھی وہاں تشریف لے جاتے جب ان سے کہا گیا کہ آپ کا مطالعہ امام احمد بن حنبل اور امام غزالی پر پروفیسر لویس سے کہیں زیادہ ہے لہذا آپ ان کے لیکچرز میں کیوں شرکت کی زحمت کرتے ہیں جس پر انہوں نے فرمایا کہ میں آپ لوگوں کی چوکیداری کے لیے شریک درس ہوتا ہوں کیونکہ میری موجودگی میں پروفیسر لویس آپ لوگوں کو امت مسلمہ کے ان جید ہستیوں کے حوالے سے گمراہ یا بد ظن نہیں کرسکتا۔ اپنے شاگردوں کی تربیت اور تحفظ کی اس سے اور بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے کہ ساری مصروفیات چھوڑ کر ان کی کردار سازی کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا جائے۔ ترک قوم کی ڈاکٹر محمد حمید اللہ سے محبت اور عقیدت کا اندازہ ان پر منعقد کانفرنسوں اور سیمیناروں سے لگایا جاسکتا ہے جو ان پر ترکیہ کے جامعات پر ہر سال ہوتی ہے جن میں آپ کی سینکڑوں علمی مقالات پڑھے جاتے ہیں۔ ترکیہ میم ڈاکٹر محمد حمید اللہ سے شناسائی کا ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے مقالات اور تصانیف شامل نصاب ہیں۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو اللہ تعالی نے بہت سے علاقائی اور بین الاقوامی زبانوں پر عبور دیا تھا۔ پروفیسر احسان صاحب کہتے تھے ڈاکٹر محمد حمید اللہ سترہ زبانوں پر مادری زبان کی طرح کامل دسترس رکھتے تھے لیکن جب آپ کا آخری وقت قریب آیا تو میرے ساتھ آخری ملاقات میں انہیں صرف قرآن اور اردو زبان یاد تھی باقی سب فراموش ہوچکا تھا۔ اگرچہ ڈاکٹر صاحب پوری دنیا میں اپنے گراں قدر علمی کارناموں کی وجہ سے معروف ہیں لیکن ترکیہ میں ان کو بطور خاص جو قدر ومنزلت حاصل ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آج اگر ترکیہ میں اسلامیات کے سینکڑوں شعبہ جات موجود ہیں اور ہزاروں طلبا وطالبات اس سے مستفید ہو رہے ہیں تو اس کا کریڈٹ بجا طور ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو جاتا ہے جو اس خطے کے ہر باشندے کے لیے باعث فخر ہے۔

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

Read Previous

Read Next

لاہور میں ترک زبان سیکھنے کا سنہری موقع

Leave a Reply