
ترک پرچم میں لپٹے ترک نژاد امریکی شہری عائشہ ایزگی کے جسد خاکی کو اُن کے آبائی وطن لے جایا گیا۔ عائشہ ایزگی کا جسدِ خاکی جب ترکیہ پہنچا تو اُس کو ہسپتال سے اُس کے آبائی قصبے دیدیم میں لایا گیا، جہاں ہزاروں افراد سڑکوں پر جنازے میں شرکت کے لیے کھڑے تھے۔ ترک امریکی سماجی کارکن عائشہ ایزگی کے جسدِ خاکی کو آبائی گھر سے دیدیم کی مسجد میں لے جایا گیا اور اُس کے بعد قصبے کے قبرستان میں اُن کا جنازہ ہوا جہاں ترکیہ پارلیمنٹ کے اسپیکر سمیت کئی اہم سرکاری حکام اور سیاسی و سماجی رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ اُن کے گریجوشن گاؤن پہنے ہوئے پورٹریٹ کو تابوت کو سامنے رکھا گیا اور جنازے کے بعد جسدِ خاکی کو ترک پرچم میں ہی دفن کیا گیا۔
ترکیہ نے اس قتل کی مذمت کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ اس کی موت کی خود تحقیقات کرے گا۔ ترکیہ پارلیمنٹ کے اسپیکر نعمان قرطلمس نے جنازے کے موقع پر سوگواروں سے کہا کہ "ہم اپنی بیٹی کا خون زمین پر نہیں چھوڑیں گے اور ہم اس قتل کی ذمہ داری اور احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں۔”
واضح رہے کہ ترک – امریکی سماجی کارکن کو 6 ستمبر کے دن مغربی کنارے میں ایک پر امن احتجاج کرتے ہوئے اسرائیلی افواج کی جانب سے نشانہ بنایا گیا تھا۔