turky-urdu-logo

زبانوں کا ترک خاندان اور اِس کی 2 اہم زبانیں

تحریر: عاطف خالد بٹ

زبانوں کے ترک خاندان میں تقریباً تین درجن زبانیں شامل ہیں اور ان کے بولنے والے یوریشیا کے جن علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں ان میں مشرقی یورپ، جنوبی یورپ، وسط ایشیا، مشرقی ایشیا، شمالی ایشیا اور مغربی ایشیا شامل ہیں۔ اس خاندان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ زبانوں کے ابتدائی خاندانوں میں سے ایک ہے۔ ماہرین کے خیال میں، اس خاندان کی زبانیں مشرقی ایشیا کے جس خطے میں پیدا ہوئیں وہ منگولیا سے شمال مغربی چین تک پھیلا ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، اس خاندان کی زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد بیس کروڑ سے زائد ہے۔ اس خاندان کی سب سے بڑی ترکی ہے اور دوسرے نمبر پر ازبک ہے۔

ترک خاندان کی ایک ذیلی شاخ اوغوز ہے۔ ترکی کا تعلق اسی شاخ ہے اور اس کے بولنے والوں کی تعداد نو کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ترکیہ کی قومی زبان ہونے کے علاوہ یہ قبرص کی دو سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں ترکی اٹھارویں نمبر پر ہے۔ جدید ترکیہ کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کی اصلاحات کے تحت 1928ء میں اس زبان کا رسم الخط عربی سے بدل کر لاطینی کردیا گیا تھا۔ ترکی میں جملہ بنانے کی ترکیب فارسی اور اردو جیسی ہے یعنی اس میں جملہ بنانے کے لیے ترتیب فاعل مفعول اور فعل ہوتی ہے۔

ترکی کے بعد اوغوز کی ایک بڑی زبان آذری یا آذربائیجانی ہے جسے آذربائیجانی ترکی بھی کہا جاتا ہے۔ ترکی اور آذری کی باہمی تفہیم ہو جاتی ہے، یعنی دونوں زبانوں کے بولنے والے ایک دوسرے کی بات سمجھ لیتے ہیں۔ میں جب تک خود وسط ایشیا نہیں گیا تھا مجھے یہ غلط فہمی تھی کہ آذری ہند آریائی خاندان کی ذیلی شاخ ہند ایرانی سے تعلق رکھتی ہے، اور اس غلط فہمی کی وجہ یہ تھی کہ شمال مغربی ایران میں اس زبان کے بولنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں جو ایران کے صوبوں مغربی آذربائیجان، مشرقی آذربائیجان، اردبیل اور زنجان میں پھیلے ہوئے ہیں۔

ایران کے مذکورہ علاقوں میں آذری آج بھی عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے لیکن 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد جب آذربائیجان آزاد ہوا تو وہاں اس زبان کو لاطینی رسم الخط میں لکھا جانے لگا۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب آذربائیجان میں اس زبان کا رسم الخط بدلا گیا، پچھلی صدی میں تقریباً چار بار ایسی کوششیں ہوچکی ہیں۔ عربی رسم الخط والی آذری کو جنوبی آذربائیجانی اور لاطینی رسم الخط والی کو شمالی آذربائیجانی کہا جاتا ہے۔ دونوں کا لسانی ڈھانچا اور ذخیرۂ الفاظ وغیرہ ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ان کے بولنے والے ایک دوسرے کی بات بغیر کسی دقت کے سمجھ لیتے ہیں۔

Read Previous

18 اکتوبر – جمہوریہ آذربائیجان کا 33واں یوم بحالی آزادی

Read Next

استنبول میں وزیرِ خارجہ حاقان فیدان کی میزبانی  میں جنوبی قفقاز علاقائی پلیٹ فارم کا تیسرا اجلاس منعقد

Leave a Reply