turky-urdu-logo

ترکیہ کے خفیہ ادارے کے چیف کی احمد الشراع سے ملاقات کی، سفارتی تعلقات مضبوط کرنے کا عزم

ترکیہ اور شام نے بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کو تیز کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان اہم سفارتی ملاقات اتوار کے روز دمشق میں ہوئی۔

شام کی نئی انتظامیہ کے سربراہ، احمد الشراع نے ترکیہ کے وفد کی میزبانی کی، جس کی قیادت ترکیہ کی نیشنل  انٹیلیجنس آرگنائزیشن کے سربراہ،  ابراہیم کیلن کر رہے تھے۔ اس ملاقات میں شام کے وزیر خارجہ، اسد الشیبانی اور جنرل انٹیلیجنس کے چیف ،انس خطاب بھی شریک ہوئے۔ شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ‘ثنا’ کے مطابق، یہ ملاقات سفارتی تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوششوں کا حصہ تھی۔

ابراہیم کیلن، ترکیہ-شام تعلقات میں کلیدی حیثیت رکھنے والی شخصیت، شام کی نئی انتظامیہ کے تحت دمشق کا دورہ کرنے والے پہلے سینئر ترک عہدیدار بن گئے۔ 12 دسمبر کو انہوں نے سخت سیکیورٹی انتظامات کے ساتھ تاریخی اموی مسجد میں نماز ادا کی، جو ترکیہ کے لیے ایک اہم علامتی حیثیت رکھتی ہے۔

کیلن کے دورے کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ، حاقان فیدان نے بھی دمشق کا دورہ کیا اور شام کے نئے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ 15 جنوری کو ترک صدر، رجب طیب ایردوان نے شام کے وزیر خارجہ، اسد الشیبانی کا انقرہ میں استقبال کیا، جو دسمبر میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام کی پہلی اعلیٰ سطحی وفد کا دورہ تھا۔

ترکیہ اور شام کے درمیان سفارتی تعلقات میں بہتری کے لیے سیکیورٹی اور انسداد دہشت گردی سب سے اہم مسائل ہیں۔ دونوں ممالک نے خطے میں دہشت گرد تنظیموں، بالخصوص PKK اور داعش کی موجودگی کو خطے کے استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

شام کی خانہ جنگی کے دوران داعش اور PKK کے شامی ونگ YPG نے شمالی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ جوابا، ترکیہ نے 2016 سے 2019 کے دوران کئی سرحد پار آپریشنز شروع کیے، تاکہ شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے اور شامی اپوزیشن فورسز کی حمایت کی جا سکے۔

احمد الشراع نے انسداد دہشت گردی کے لیے ترکیہ کے ساتھ قریبی تعاون کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ترکیہ کے نشریاتی ادارے ،اے خبرکو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ، شام، داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف لڑائی میں ترکیہ سے مدد لینے پر غور کر سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ،ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام ممالک سے مدد کے خواہاں ہیں۔ اگر PKK/YPG نے ہتھیار نہ ڈالے تو شام کی تقسیم کا خطرہ برقرار رہے گا۔ اس سلسلے میں، ہم ترکیہ سے بھی تعاون کی توقع رکھتے ہیں۔

شمالی شام میں فرات دریا کے گرد PKK/YPG اب بھی کئی علاقوں پر قابض ہیں اور خودمختار کرد علاقے قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، عرب قبائل اور شامی نیشنل آرمی (SNA) نے حالیہ مہینوں میں تل رفعت اور منبج جیسے اہم علاقوں کو دہشت گردوں سے آزاد کرایا ہے۔

منبج کے جنوب مشرقی علاقے میں تشرین ڈیم کے اردگرد جھڑپیں جاری ہیں، جہاں ہزاروں شہری رہائش پذیر ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں دہشت گردوں نے انسانی ڈھال کے طور پر شہریوں کا استعمال کیا ہے، جس پر شدید تنقید کی گئی ہے۔

Read Previous

 یرغمالیوں کی رہائی پر اتفاق کے بعد ہزاروں بے گھر فلسطینی غزہ کی جانب روانہ

Read Next

ترکیہ کا عراق کو  PKK اور IS کے خلاف مشترکہ جنگ  کی پیشکش

Leave a Reply