turky-urdu-logo

شطرنج کی بساط پر عقلمند چالیں — حماس کا ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر ردعمل

تحریر: شبانہ ایاز

غزہ کی جنگ اس وقت ایک نازک موڑ پر ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے پر حماس کے حالیہ ردعمل نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی جانب سے اس منصوبے کی غیر مشروط حمایت اور حماس کی جزوی رضامندی نے اس تنازعے کو ایک نئے مرحلے میں داخل کر دیا ہے۔29 ستمبر 2025 کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے دوران ایک جامع امن منصوبہ پیش کیا، جس میں فوری جنگ بندی، یرغمالوں کے تبادلے، اور غزہ کی آئندہ انتظامیہ کے لیے ایک عبوری ٹیکنوکریٹک حکومت کی تجویز شامل تھی۔ اس منصوبے کے مطابق 20 زندہ اور 28 مردہ یرغمالوں کے بدلے 250 عمر قید اور 1,700 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی شق موجود تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ حماس سے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کیا گیا، اور یہ کہا گیا کہ غزہ کی انتظامیہ عرب ممالک کی نگرانی میں غیر جانبدار فلسطینی ماہرین کے سپرد کی جائے۔نیتن یاہو نے تاہم واضح کیا کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کے سخت خلاف ہے اور غزہ میں ایک ’’بفر زون‘‘ قائم رکھنا چاہتا ہے تاکہ مستقبل میں کسی عسکری خطرے سے بچا جا سکے۔ بظاہر یہ اسرائیل کی جانب سے ایک چال تھی، تاکہ حماس کو یا تو ان شرائط پر آمادہ کیا جائے یا اسے عالمی سطح پر ’’امن دشمن‘‘ کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ لیکن حالات نے ایک مختلف موڑ لیا۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، ترکیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے عرب ممالک نے فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت میں آواز بلند کی۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اسرائیلی موقف کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔دوسری جانب اگست 2025 میں ’’گلوبل صمود فلوٹیلا‘‘ کے نام سے 50 سے زائد جہازوں پر مشتمل ایک بین الاقوامی امدادی قافلہ یورپ کے مختلف ممالک سے غزہ کی طرف روانہ ہوا۔ اس فلوٹیلا میں انسانی حقوق کے عالمی کارکن، سماجی رہنما، اور حتیٰ کہ ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی شامل تھیں۔ مقصد یہ تھا کہ غزہ کی 18 سالہ ظالمانہ ناکہ بندی توڑی جائے اور انسانی امداد براہِ راست فلسطینی عوام تک پہنچائی جائے۔ اسرائیلی بحریہ نے اکتوبر کے آغاز میں ان جہازوں کو روک کر 450 کے قریب کارکنوں کو حراست میں لے لیا، جبکہ امدادی سامان اشدود بندرگاہ پر ضبط کر لیا گیا۔اگرچہ فلوٹیلا کا مقصد مکمل طور پر حاصل نہ ہو سکا، لیکن اس نے دنیا بھر میں فلسطینیوں کی حالت زار کو ایک بار پھر اجاگر کیا۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے سخت الفاظ میں اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’غزہ میں نسل کشی فوری طور پر روکی جائے۔‘‘ اس فلوٹیلا نے اسرائیل پر سفارتی دباؤ بڑھایا اور ساتھ ہی حماس کے لیے بین الاقوامی حمایت کا ماحول بھی پیدا کیا۔ان واقعات کے تسلسل میں 3 اکتوبر کو حماس نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر اپنا ردعمل دیا۔

حماس نے منصوبے کے کچھ حصوں کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام 48 یرغمالوں (20 زندہ اور 28 مردہ) کی رہائی پر آمادہ ہے، بشرطیکہ اس کے بدلے میں 250 عمر قید اور 1,700 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ ساتھ ہی حماس نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ غزہ کی آئندہ انتظامیہ غیر جانبدار فلسطینی ٹیکنوکریٹس کے سپرد کی جائے جو عرب اور اسلامی ممالک کی حمایت سے کام کریں گے۔ تاہم، حماس نے ایک بات پر سختی سے انکار کیا—اور وہ تھا غیر مسلح ہونا۔ حماس کا کہنا تھا کہ فلسطینی عوام کی مزاحمت ان کا بنیادی حق ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’ہم جنگ ختم کرنے کے قریب ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ حماس نے امن کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے اور اسرائیل کو اب بمباری روکنی چاہیے۔ 4 اکتوبر کو اسرائیلی فوج نے غزہ کے کچھ علاقوں میں آپریشنز عارضی طور پر روک دیے اور مصری تعمیراتی ٹیمیں بحالی کے کام کے لیے داخل ہو گئیں۔

اس صورتحال نے دنیا کو چونکا دیا کہ شاید برسوں سے جاری اس خونی تنازعے میں اب کوئی نیا باب کھلنے والا ہے۔حماس کی اس پالیسی نے اسرائیل کے اس پروپیگنڈے کو ناکام بنا دیا جس کے مطابق حماس امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ اب الٹا اسرائیلی حکومت خود دباؤ میں آ گئی ہے۔ نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت کے اندر بھی اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ غزہ میں 66 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکتوں اور نسل کشی کے الزامات نے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ ولکر ٹرک نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’یہ قتل عام روکنے کا ایک تاریخی موقع ہے۔‘‘ لیکن زمینی حقائق اب بھی پیچیدہ ہیں۔

حماس کے سیاسی رہنما جو قطر میں موجود ہیں، وہ معاہدے کی حمایت میں ہیں، جبکہ غزہ کے اندر موجود عسکری کمانڈرز اس سے زیادہ محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ماہرین کے مطابق اس وقت 70 سے 80 فیصد امکان ہے کہ اگلے ہفتے کے اندر یرغمالوں کی رہائی کا عمل شروع ہو جائے گا، تاہم لاجسٹک رکاوٹیں اس عمل کو سست کر سکتی ہیں۔ مکمل امن کے امکانات تقریباً 50 فیصد سمجھے جا رہے ہیں کیونکہ حماس کو غیر مسلح کرنا اور انتظامی معاملات پر اب بھی شدید اختلافات موجود ہیں۔ٹرمپ نے اس عمل میں قطر، ترکیہ، سعودی عرب، مصر اور اردن کے کردار کو سراہا۔ برطانیہ، فرانس اور اقوام متحدہ نے اسے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا، لیکن اسرائیل کے اندر یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ حماس اس موقع کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

اگر موجودہ صورتحال کو شطرنج کی بساط سے تشبیہ دی جائے تو حماس نے اپنی چال نہایت سمجھداری سے چلی ہے۔ اس نے اسرائیل کو سفارتی طور پر گھیر کر رکھ دیا ہے، جبکہ نیتن یاہو عالمی دباؤ کے تحت محدود آپشنز کے ساتھ کھڑا ہے۔ فلسطینی استقامت فلوٹیلا—جسے عرب دنیا میں ’’صمود‘‘ کہا جاتا ہے—نے دنیا کی توجہ ایک بار پھر فلسطینی عوام کے حقوق کی طرف مبذول کرائی ہے۔

یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ امن کی یہ کوشش پائیدار ثابت ہوگی یا نہیں، لیکن یہ بات طے ہے کہ حماس نے اس بار سیاسی طور پر ایک مضبوط موقف اختیار کیا ہے۔ اگر عرب ممالک اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک جامع فریم ورک تیار کر لیں، تو یہ مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک نیا آغاز ہو سکتا ہے۔ ورنہ یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا—شطرنج کی بساط پر اگلی چال کس کی ہوگی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔

Read Previous

صدر ایردوان: "2026 ترکیہ کے لیے اصلاحات کا سال ہوگا” — شام کی سالمیت کی بھرپور حمایت جاری، فلسطین اور بیت المقدس کے دفاع تک ہم بے خوف کھڑے رہیں گے”

Read Next

سعودی عرب میں پاکستانیوں کے لیے روزگار کی خوشخبری — افرادی قوت دوگنا کرنے کی منصوبہ بندی

Leave a Reply