
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے متعلق ساری دنیا اب اس رائے سے اتفاق کررہی ہے جو ہماری پہلے دن سے تھی۔
دورہ چین کےحوالے سے سابق سفارتکاروں اور صحافیوں سےگفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کے حوالے سے امریکا کے سوا روس اور چین سمیت تمام ممالک کا اس بات پر اتفاق ہے کہ افغانستان میں انسانی بحران کا راستہ روکنا چاہیے اور ان کے اثاثے بحال کرنا چاہیے، امریکا کو بھی اندازہ ہے کہ افغانستان کے حالات بگڑے تو اس کے اثرات امریکا پر بھی پڑیں گے،۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات تاریخ میں سب سے زیادہ مضبوط حالیہ دورے کے بعد ہوئے ہیں، چین کی جانب سے کئی منصوبوں میں تعاون کی یقن دہانی کروائی گئی ہے، آج کی نشست کا مقصد چین کے حالیہ دورے سے متعلق بات چیت اور اپنے آئیڈیاز شیئر کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کا سیاسن منظرنامہ تیزی سے بدلتا جارہا ہے، 2 سال پہلے جب چین گیا اس وقت دنیا کے جو حالات تھے ان میں اب بہت تیزی سے تبدیلی آچکی ہے، اس حوالے سے یہ دورہ انتہائی اہم تھا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ کورونا وبا سے پاکستان جس طرح نمٹا اور پاکستان کے مثبت معاشی اشاریوں پر چین کی خاص نظر تھی جس کی حالیہ دورہ چین میں چینی صدر سمیت سب نے بہت تعریف کی۔
گوادرپاور پلانٹ پراجیکٹ میں تاخیر سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے چین بھی بند ہوگیا تھا، کورونا کے سبب 2 سال کے بعد چینی صدر نے پہلی بار یہ حالیہ ملاقاتیں کی ہیں، اس وجہ سے اس پراجیکٹ کو فنانس کرنے کا سلسلہ بھی رک گیا تھا، ہم چین کی اعلیٰ قیادت کے فیصلے کا انتطار کررہے تھے جن کی مرضی کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں، حالیہ دورے پر بالاخر کئی معاملات طے ہوگئے ہیں۔
خصوصی اقتصادی زونز سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ صوبوں کی صوابدید ہے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد فیصلہ سازی کا عمل فریکچر ہوچکا ہے، مثلاً سندھ اور پنجاب میں گندم الگ الگ قیمتوں پر بک رہی ہے جبکہ ملک بھر میں ایک ہی قیمت پر گندم فروخت ہونا چاہیے، چین میں جب ایک فیصلہ ہوتا ہے تو ہر سطح پر اس پر عملدرآمد ہوتاہے، پاکستان میں وفاق اور صوبوں کے درمیان سنرجی نہ ہونے کی وجہ سے چائنیز بزنسز کو بھی مشکلات کا سامان رہا۔
وزیراعظم نے کہا کہ 3 سالوں میں اقتصادی معاملات اور قومی مفاد کو ہم آہنگ کرنا ایک بڑا مسئلہ رہا ہے، ہم باقاعدگی سے میٹنگز کرکے اسے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین میں یہ ملاقات اس لیے اہم تھی کیونکہ 2 سال سے ملاقات نہیں ہورہی تھی، کورونا سے متعلق چین نے غیرمعولی حکمت عملی اپنائی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب میں سرمائی گیمز دیکھنے گیا تو وہاں چین کے بعد سب سے زیادہ پاکستانیوں نے داد سمیٹی جو ہمارے گہرے تعلقات کا عکاس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کی اسٹریٹیجک سمت کے حوالے سے میں، میری مختصر ٹیم اور پنڈی بھی کلیئر ہیں کہ سب سے اپنا تعلق قائم کریں، ہم اس پوزیشن پر نہیں آنا چاہتے تھے جس سے اچانک یہ تاثر قائم ہو کہ ہم کسی کیمپ کا حصہ بن گئے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس ملک میں ریفارمز کی بڑی ضرورت ہے، لیکن اگر آپ ریفارم کرنا چاہتے ہیں تو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت لازمی ہے، ہم پارلیمنٹ سے کوئی بل پاس کرواتے تو وہ سینیٹ میں پھنس جاتا تھا جہاں ابھی بھی ہماری اکثریت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن نہ کرنے پر مجھ پر شدید تنقید کی گئی،مجھ پر ایف آئی آر کٹوانے کی باتیں کی گئیں، آج دیکھ لیں کہ امریکا سمیت کئی ممالک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے نچلا طبقہ پس گیا، جرمنی اور فرانس میں لوگ اس کے خلاف نکل آئے، بھارت کای شرح نمو بھی مائنس 6 فیصد ہوگئی، لیکن ہم اس تمام صورتحال سے کامیابی سے نکل آئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2 سال قبل روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات میں تفصیلی گفتگو ہوئی، اور جب انہوں نے آزادی اظار رائے کے غلط استعمال کے خلاف ٹوئٹ کیا تو میں نے ان کی تعریف کی، اس کے بعد روسی صدر نے مجھے کال کی اور بتایا کے روس میں ساڑھے 3 کروڑ مسلمان ہیں، یہاں اسلاموفوبیا کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، چین کے حالیہ دورے پر انہوں نے وہاں کے سب سے بڑی مسجد میں تقریب بھی منعقد کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم اب پرائیوٹ سیکٹر کے بھی چین سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، چین نے جمہوریت کے بغیر بھی کامیابی حاصل کرلی، کیونکہ وہاں میرٹ اور احتساب کا تصور موجود ہے، شی جن پنگ کی وجہ شہرت بھی یہی ہے کے انہوں نے اعلٰی عہدوں پر بیٹھے 400 سے زائد لوگوں کا احتساب کیا، اور انہوں نے غربت جس طرح قابو پایا وہ سب کے لیے ایک مثال ہے۔