turky-urdu-logo

طالبان نے افغانستان کے چھٹے صوبائی دارالحکومت پر بھی قبضہ کر لیا

طالبان نے گزشتہ ہفتے شمالی صوبوں میں حکومتی فورسز کے خلاف تیزی سے پیش قدمی کرنے کے بعد اب چھٹےصوبائی دارالحکومت پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔

سمنگان کے ڈپٹی گورنر صفت اللہ سمنگانی نے کہا کہ طالبان بغیر کسی لڑائی کے صوبائی دارالحکومت ایبک میں داخل ہوئے جہاں صوبے کے مضافات میں ایک ہفتےسے جاری جھڑپوں کے بعد برادری کے عمائدین نے مزید کشیدگی سے بچنے کے لیے سرکاری عہدیداروں سے درخواست کی۔

صفت اللہ سمنگانی نے کہا کہ گورنر نے درخواست منظور کرتے ہوئے تمام فورسز کو شہر سے ہٹادیا اور شہر میں اب طالبان کا مکمل کنٹرول ہے۔

طالبان کے مقامی ترجمان نے بھی شہر میں قبضے کی تصدیق کردی۔

رپورٹس کے مطابق اس سے قبل طالبان نے شمال میں 5 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کیا، جس کے بعد خطے میں حکومت کے کنٹرول کھونے کا خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

طالبان نے گزشتہ ہفتے جنوب مغربی صوبے نمروز کے دارالحکومت زرنج کا کنٹرول بھی حاصل کرلیا تھا۔

طالبان نے تازہ بیان میں کہا کہ وہ مزار شریف کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں جو شمال میں سب سے بڑا شہر ہے اور خطے میں حکومت کے تسلط کی علامت ہے جبکہ طالبان نے اس کے مغرب میں شبرغان اور مشرق میں قندوز اور تالقان کو زیرنگیں کر چکے ہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ طالبان شہر میں داخل ہوچکے ہیں لیکن سرکاری عہدیدار اور مقامی افراد نے فون پر کہا کہ طالبان بڑھا چڑھا کر بات کر رہے ہیں تاہم اطراف کے اضلاع میں جھڑپوں کی تصدیق کی۔
صوبہ بلخ کی پولیس فورس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ دشمن رائے عامہ کو توڑ مروڑنا اور اپنے پروپیگنڈے سے عام آبادی میں بے چینی پیدا کرنا چاہتا ہے۔

افغان صوبے بلخ کے دارالحکومت مزار شریف کے مضبوط رہنما عطا محمد نے آخر تک لڑائی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ میرے خون کے آخری قطرے تک مزاحمت ہوگی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ میں بے بسی کی موت کے بجائے عزت سے مرنے کو ترجیح دوں گا۔

مزار شریف کی معاشی اور تاریخی حیثیت کو دیکھتے ہوئے یہاں طالبان کے قبضے کی صورت میں افغان حکومت کا شمال میں تسلط کے خاتمے کا اشارہ ہوگا اور حکومت کے مستقبل پر سنجیدہ سوالات اٹھیں گے۔

افغانستان کے شمال میں دوسرے بڑے شہر قندوز پر طالبان نے گزشتہ روز قبضہ کرلیا تھا جہاں شہریوں کا کہنا تھا کہ جنگجو ہر جگہ پر موجود ہیں، سرکاری دفاتر اور اداروں پر قابض ہوگئے ہیں۔

ایک مقامی، رحمت اللہ کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کی صورت حال اچھی نہیں ہے اور ہم اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ خوف ناک مووی کی طرح ہے۔

ایک اور شہری عبدالقدوس نے کہا کہ خوف میں اضافہ ہورہا ہے کہ قندوز میں کھانے اور پانی کی قلت ہوگی۔

Read Previous

مالی میں دہشت گردی، ترکی کی مذمت

Read Next

گلوبل وارمنگ بے قابو ہونے والی ہے،اقوام متحدہ

Leave a Reply