turky-urdu-logo

بھارت میں حجاب اور لڑکیوں کی تعلیم کا معاملہ

تحریر:عاطف خالد بٹ

بھارت میں جب سے نریندر مودی وزیراعظم بنے ہیں تب سے انتہا پسند ہندوؤں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور وہ ملک بھر میں اقلیتوں کے خلاف بلا خوف و خطر پُر تشدد کارروائیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کارروائیاں کی تو اقلیتوں کو دبانے کے لیے جاتی ہیں لیکن ان کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر بھارت کے بارے میں ایسی منفی رائے بن رہی ہے جو طویل مدتی تناظر میں کچھ گہرے اثرات کی حامل ہوسکتی ہے۔ ان دنو ں بھارت سے متعلق جو مسائل بین الاقوامی سطح پر موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں ان میں مسلمان لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں حجاب استعمال کرنے کا مسئلہ سر فہرست ہے۔ اس حوالے سے معروف بھارتی صحافی برکھا دت نے چار روز پہلے امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں ایک مضمون لکھا جسے اردو کے قالب میں ڈھال کر یہاں پیش کیا جارہا ہے۔ (واضح رہے کہ یہ مذکورہ مضمون کا آزاد ترجمہ ہے۔)

اس سے زیادہ پریشان کن منظر شاید ہی کوئی اور ہو کہ نوجوان لڑکیوں پر اسکولوں اور کالجوں کے دروازے بند کردیے جائیں۔ لیکن یہ بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک میں دیکھنے کو ملا جہاں مسلم لڑکیوں کو، جن میں سے اکثر نو عمر ہیں، کئی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حق سے محض اس لیے محروم کردیا گیا کہ وہ کلاس میں حجاب پہننے پر اصرار کرتی ہیں۔ دو سال کے لاک ڈاؤن کے بعد بھارت کے تعلیمی ادارے ابھی بمشکل کھلنا شروع ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، بھارت میں 57 فیصد لڑکیاں گیارھویں جماعت سے تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔ مسلم لڑکیوں کے تعلیم چھوڑنے کی شرح اور بھی زیادہ ہے اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی نسبت مسلم لڑکیوں کی شرح خواندگی بھی کم ہے جبکہ اعلیٰ تعلیم میں مسلم لڑکیوں کے داخلہ لینے کی شرح بھی سب سے کم ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی کے نعرے ’بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ‘ کو سامنے رکھا جائے تو حکومت اور اداروں کو اپنی توانائی اس کام پر لگانی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں ڈگریاں حاصل کر کے خود مختار بنیں۔ اس کی بجائے ہم یہ افسوس ناک مناظر دیکھ رہے ہیں کہ حجاب پہننے والی لڑکیوں کو تعلیمی اداروں کے سخت گیر  محافظ کلاسوں کے اندر داخل ہونے سے روک رہے ہیں۔ حجاب کے معاملے پر حقوق نسواں کے علم بردار ایک لمبے عرصے سے تقسیم کا شکار ہیں۔ کچھ لوگ اسے عورت کی شائستگی کے پدرانہ تصورات کا مظہر گردانتے ہیں تو کچھ اسے ذاتی پسند کا معاملہ قرار دیتے ہیں۔ کثیر ثقافتی حوالوں کو اہمیت دینے والے اسے ایک ایسی شے کے طور پر دیکھتے ہیں جو شناخت کے اظہار کو تقویت دیتی ہے جبکہ جدت پسندوں کے نزدیک یہ قدامت پسندی کی علامت ہے۔ ذاتی طور پر میں کسی بھی مذہب کی ایسی کسی بھی رسم، رواج یا علمی شکل کو پسند نہیں کرتی جو عورت کے لیے تو ضروری ہو لیکن مرد کے لیے نہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چاہے ہماری سماجی تقسیم کے ایک جانب حجاب ہو اور دوسری طرف خواتین کو جنسی حوالے سے حد سے زیادہ دلکش بنا کر پیش کرنے کی کوششیں، خواتین کے جسم کو ڈھانپنے یا نہ ڈھانپنے پدر سری تمدن اور ذرائع ابلاغ سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔ سماجی رابطے کی ویب گاہ انسٹاگرام پر تیراکی کا لباس پہنی ہوئی خواتین کی تصاویر اتنی ہی غلط اور تعصب سے پُر ہیں جتنا کہ کسی خاتون کو کالے رنگ کے کپڑے میں لپیٹ دینا۔ ہم میں سے اکثر لوگ اپنی پرورش کے دوران حاصل کیے گئے تعصبات میں الجھ کر ہی زندگی گزار دیتے ہیں۔

لیکن اس وقت ہمیں جو معاملہ درپیش ہے یہ علمی اور غیر مادی نوعیت کا ہے۔ آپ حجاب کے بارے میں کوئی بھی رائے رکھتے ہوں لیکن مسلمان لڑکیوں کو اس کی سزا دینے کا کوئی جواز نہیں بنتا؛ بلکہ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں کہ ان کی کمیونٹی نے اس لباس کو زبردستی ان پر مسلط کردیا ہے تو پھر اس کے خلاف رویہ اختیار کر کے آپ انھیں دوہری سزا کیوں دے رہے ہیں؟

یہ تنازعہ پہلی بار اس وقت سامنے آیا جب ساحلی شہر اڈیپی میں چھے لڑکیوں نے عدالت سے استدعا کی کہ انھیں کلاس کے اندر حجاب پہننے کی اجازت دی جائے۔ اب تک طالبات گھر سے اپنے اداروں تک تو حجاب پہنتی تھیں لیکن کلاس کے اندر جاتے وقت اسے اتار دیتی تھیں۔ کرناٹک کی صوبائی حکومت نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) نامی اسلامی تنظیم کے طلبہ ونگ پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے احتجاج کے سلسلے کو ہوا دی۔ جیسے ہی یہ تنازعہ جنگل کی آگ کی طرح پوری ریاست میں پھیلا تو دائیں بازو کے ہندو طلبہ کے گروہ مسلم لڑکیوں کے خلاف سامنے آگئے؛ یوں ایک ایسا مسئلہ جو ایک ادارے کی سطح پر والدین، اساتذہ اور طلبہ کے مابین بات چیت سے افہام و تفہیم سے حل ہوسکتا تھا اب حکومتی مسئلہ بن گیا جس پر صوبائی حکومت نے ایسے لباس پر پابندی لگانے کا حکم جاری کردیا جو ’مساوات، غیر منقسم ہونے اور عوامی امن و امان میں خلل کا باعث بنتا ہو۔‘ اس مسئلے کو سیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہیے تھا۔ تصادم بڑھا تو تعلیمی ادارے بند کردیے گئے۔

بہت سی لڑکیاں جن سے میں نے بات کی ہے کہتی ہیں کہ حجاب ان کے اردگرد پھیلے اسلاموفوبیا کے خلاف احتجاج کی ایک شکل ہے۔ ارکان پارلیمان ہندو عقیدے سے وابستگی کا اظہار کرنے کے لیے زعفرانی رنگ کا لباس پہن سکتے ہیں؛ خاص طور پر بھارت کی سیاسی حوالے سے اہم ترین ریاست اتر پردیش کے وزیراعلیٰ اور ہندوتوا کے پرچارک یوگی آدتیہ ناتھ ہمیشہ یہی لباس پہنتے ہیں جو ان کی مذہبی شناخت کا اظہار کرتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں زعفرانی لباس پہنے ہوئے لوگوں کے اجتماعات میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کا کھلے عام مطالبہ کیا گیا۔ لڑکیوں کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ بھی ان کے مذہبی لباس پہننے کے حق سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔

کرناٹک میں ایک کالج کی طالبہ مسکان خان کو ہندو مظاہرین کے ایک طنزیہ ہجوم کا سامنا کرنا پڑا جس میں اس کے کالج کے طلبہ کے علاوہ ایسے افراد بھی شامل تھے جن کا کالج سے تعلق نہیں تھا۔ ان لوگوں نے زعفرانی رومال پہنے ہوئے تھے۔ مسکان نے ان کے نعروں کے جواب میں ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگایا۔ جب اس کی ویڈیو انٹرنیٹ کے ذریعے ہر طرف پھیل گئی تو اس نے موجو نامی صحافتی تنظیم سے بات کرتے ہوئے کہ پورا بھارت میرے ساتھ کھڑا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس معاملے پر بھارت میں لوگ جس طرح منقسم دکھائی دیتے ہیں ایسا پہلے کبھی بھی نہیں ہوا۔

یہ بحث اب صرف ان ریاستوں تک محدود نہیں رہی جہاں دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے بلکہ یہ کمیونسٹوں کے زیر انتظام چلنے والی ریاست کیرالہ میں بھی صوبائی حکومت نے ایک سرکاری سکول میں ایک پولیس کیڈٹ کو حجاب پہننے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ چند برس پہلے، کیرالہ کے 150 تعلیمی اداروں کی نگرانی کرنے والے مسلم ماہرین تعلیم نے یہ اعلان کیا تھا کہ کلاس کے اندر کسی بھی لڑکی کو چہرہ ڈھانپنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

بھارت میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ذکیہ ثمن کا کہنا ہے کہ میں حجاب کے حق میں تو نہیں ہوں لیکن لڑکیاں حجاب پہنیں یا نہ پہنیں اس کا فیصلہ اس کمیونٹی کی خواتین کو خود کرنا چاہیے جس سے کمیونٹی سے متعلق بات کی جارہی ہے۔ وہ کرناٹک کے ان مردوں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتی ہیں جنھوں نے لڑکیوں کو دھمکایا اور ان سے بدتمیزی کی۔ ذکیہ نے کہا کہ واضح طور پر ان لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا اور یہ ایک ایسی صورتحال میں کیا گیا جبکہ ہمارے اردگرد دیگر مذہبی شناختوں کا اظہار کھل کر ہورہا ہے۔ ہم صنفی تفاوت ختم کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہم سب کے لیے یکساں مذہبی آزادی اور جمہوری اقدار کو لے کر چلنے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ مذہبی حوالے سے لوگوں کے مابین توازن پیدا کرنے میں دہائیاں لگ سکتی ہیں لیکن اس دوران لڑکیوں کو تعلیم کے حق سے محروم رکھنا ایک نامعقول بات ہے۔

ڈاکٹر عاطف خالد بٹ پیشے کے اعتبار سے زبان و ادب کے استاد ہیں اور صحافت سے بھی وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی امور اور عالمی سیاست ان کی خصوصی دلچسپی کے میدان ہیں۔

Read Previous

یوٹیوب کا اپنے پلیٹ فارم پر نقصان دہ مواد کی روک تھام کے لیے نئے اقدامات پر غور

Read Next

حجاب مقابل عورت مارچ

Leave a Reply