اسرائیلی کابینہ آج جمعہ کے روز غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے پر ووٹ دینے کے لیے اجلاس منعقد کرے گی۔ اس معاہدے کا مقصد 15 ماہ سے جاری تنازع کو ختم کرنا ہے، جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
امریکا اور قطر کے ثالثی میں طے پانے والے اس معاہدے کے مطابق، اتوار کے روز سے جنگ بندی نافذ ہوگی، جس کے تحت اسرائیل یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نیتن یاہو کے دفتر نے حماس پر معاہدے کی شرائط سے انحراف کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ، یہ اقدام آخری لمحات میں مزید رعایتیں لینے کی کوشش ہے۔ تاہم، کابینہ آج جمعہ کے روز ووٹ دینے کے لیے اجلاس منعقد کرے گی۔
وزیر برائے سیکیورٹی ایتامار بن گویر نے اس معاہدے کی مخالفت کی ہے۔ بن گویر نے اعلان کیا ہے کہ ، اگر یہ معاہدہ منظور ہوا تو وہ حکومت چھوڑ دیں گے۔
معاہدے کے پہلے مرحلے میں 42 دن کی جنگ بندی ہوگی، جس کے دوران 33 یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا، جن میں بچے، خواتین، بیمار اور زخمی افراد شامل ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فورسز غزہ کے گنجان آباد علاقوں سے پیچھے ہٹیں گی، اور بے گھر فلسطینیوں کو واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔
حماس نے معاہدے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تاہم، اسرائیلی فورسز نے معاہدے کے اعلان کے بعد غزہ پر شدید بمباری کی، جس میں 77 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے معاہدے کے نافذ ہونے پر اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ ، جنگ بندی منصوبے کے مطابق اتوار سے شروع ہوگی۔ قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے اعلان کیا کہ، معاہدے کے تحت فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں شروع کی جائیں گی۔
یہ معاہدہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے جاری تنازع کو ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے، جس میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
