turky-urdu-logo

گیلی پولی کا معرکہ: ناقابل تسخیر ترک

تحریر: حماد یونس

کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے عزم ، ہمت اور استقلال کے بل بوتے پر تاریخ کا رخ بدل دیتی ہیں ۔ یہی معاملہ عظیم ترک سپاہی ، ” غازی سید علی” کا بھی ہے۔

چناکلے میں میرے ترک بھائی ، آج چراغاں کیے ہوئے ہیں ، 108 برس سے یہ روایت ہے کہ مارچ کے وسط سے ہی ایک اداسی کی لہر پورے چناکلے ، یا شاید تمام ترکیہ کو ہہ اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔ مگر بلند حوصلوں اور اٹوٹ امنگوں کا ایک دریا ہے جو اس اداسی کو سہارا دیتا ہے۔

موجودہ ترکیہ کے شمال مغربی خطے پر، بحیرہ ایجیئن کے ساحل پر تقریباً 3 ہزار برس پہلے ایک جنگ لڑی گئی ، جس کی وجوہات جو بھی رہی ہوں مگر وہ چند غیر متزلزل جذبے، کچھ لوگوں کا اپنی ملت کو اپنی جان سے بڑھ کر عزیز جاننا اور لمحوں کے ہیر پھیر میں کیے گئے چند فیصلے ہی تو تھے جو تاریخ میں امر رہے۔

مگر جب ، تقریباً تین ہزار سال بعد اہلِ یورپ، برطانیہ کی قیادت میں فرانس، روس، یونان ، امریکہ(یا نیو فاؤنڈ لینڈ) ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی افواج مع ہندوستانی گورکھا لشکر کے اسی ساحل کنارے اترے، اور ترک لشکر کو تین اطراف گھیرے میں لیے ہوئے طاقت کے نشے میں چور ہو کر آگے بڑھے تو کس نے سوچا تھا کہ ڈی جا وو واقعتاً ایک تھیوری نہیں بلکہ آفاقی قانون ہے!!!
بیرونی رسد کے تمام راستے مسدود ، اسلحہ تقریباً نا ہونے کے برابر ، شب خون کی صورتحال ، اور دشمن چہار جانب سے حملہ آور تھا اور چناکلے اس گیلی پولی کے معرکے کا پہلا دروازہ تھا جہاں ترک ملت نے اپنی تاریخ ، اپنے لہو سے لکھنے کا فیصلہ کیا۔۔

اسی بحیرہ ایجیئن کے کنارے جب قدیم اہلِ یونان اپنے تمام قبائل اور ریاستوں کی افواج لے کر ٹرائے پر ٹوٹ پڑے تھے تو تب وہ دیو مالائی حد تک مکمل داستان ، ایلیڈ وجود میں آئی تھی ، مگر کیا ہومر کے علاوہ بھی کوئی اس کا گواہ ہے ؟
خود ابو التاریخ ہیروڈوٹس بھی اس کی درست تاریخ یقین سے نہیں بتا سکتا ۔
مگر ترکانِ تیز گام کی صاحب نظری کے تو وہ سب قائل ہیں جنہوں نے انہیں آزمانا چاہا۔ بلکہ شاید سارا جہان قائل ہے۔

19 فروری 1915 کو جو بحری کمپین اتحادی افواج نے ترکیہ کے خلاف شروع کی، وہ 18 مارچ کو آبنائے ڈارڈینیلیس تک پہنچی۔
آبنائے ڈارڈینیلس دو سمندروں بحیرہ ایجیئن اور بحیرہ اسود کو ملاتی ہے۔ ترک خطہ چناکلے اسی آبنا کے ساحل پر آباد ہے۔

اتحادی افواج کی اس کیمپین کے کئی مقاصد تھے ، سلطنت عثمانیہ کی کمر توڑنا ، ترکوں کو دنیا بھر میں رسوا کرنا ، مسلمانوں کی آخری بڑی آزاد قوت کو ختم کرنا ، نہر سویز پر قبضہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اس جنگ کو تاریخ گیلی پولی کی مہم جوئی کا نام دیتی ہے۔
یہ جنگ 19 فروری 1915 سے 9 جنوری 1916 تک جاری رہی۔

دبے قدموں ، رات کے اندھیروں میں اپنی اور اپنے اتحادیوں کی پوری عسکری قوت ساتھ لیے ہوئے برطانیہ جب اس چناکلے کے ساحل تک پہنچا تو اس کا یہ دعویٰ دنیا تسلیم کرتی تھی کہ برطانیہ کی سرزمین میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ یعنی برطانیہ کی نو آبادیاتیوں کا رقبہ اس قدر وسیع تھا کہ اگر بھارت میں رات ہوتی تو نیو فاؤنڈ لینڈ یعنی شمالی امریکہ میں ابھی دن ہوتا ۔ اسی طاقت کے بھروسے تو یورپ کے مردِ بیمار ترکیہ پر شب خون مارا گیا تھا ۔
چاروں جانب سے مسلسل گولہ باری ، فائرنگ اور افرادی قوت کی برتری کے سہارے اتحادی افواج نے شمال مغربی ترکیہ کے اس خطے کو ابتدائی مرحلے میں کاری ضرب ضرور لگائی ، ترکوں کے اسلحے کے ڈپو بیشتر تباہ کر دیے گئے اور استنبول سے چناکلے کے تمام رابطے معطل کر دیے گئے۔ مگر ترکوں کی حوصلہ مندی کا زمانہ گواہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے یہ ٹھان لیا کہ اگر ہماری گولیاں ختم ہو جائیں تو بھی بندوقوں کے کے آگے جو سنگینیں لگی ہیں وہی کافی ہیں ، جب تک جان ہمارے جسموں کا ساتھ نہ چھوڑے اور ایک قطرہِ خوں ہماری رگوں میں باقی ہو، تب تک اتحادی افواج ہمارے وطن پر ایک قدم بھی نہیں جما سکتیں ۔

بندوقوں نے جب گولیاں اگلنے سے معذوری ظاہر کی تو ترکوں نے اپنے خنجر نکال لیے ۔ دنیا آج تک حیران ہے کہ اس بظاہر ناقابلِ شکست اتحادی فوج کو شکست کیسے ہو گئی جس کا اسلحہ کہیں بہتر تھا، جس کی افرادی قوت کہیں زیادہ تھی اور جس کی جنگی تیاری کا کوئی مقابلہ ہی نہ تھا کیونکہ شب خون کی صورت میں کیے جانے والے اس غیر معمولی حملے کے لیے ترک افواج پوری طرح تیار بھی نہ تھیں۔

گیلی پولی کے اس معرکے میں اڑھائی لاکھ ترک جوان شہید ہوئے تھے ۔ 1915 کی آبادی کے اعتبار سے شہدا کی اتنی بڑی تعداد تھی کہ پوری ملت کا حوصلہ ٹوٹ جاتا مگر مورخ گواہ ہے کہ اسی خونِ صد ہزار انجم سے نویدِ سحر بھی ملی۔
ترک فوج کی رجمنٹ 57 کا ہر جوان شہید ہو گیا۔ آج بھی اس رجمنٹ کا علم لہرا رہا ہے ، اس کی مخصوص چھاؤنی بھی برقرار ہے مگر ، گیلی پولی کے ان شہدا کی یاد میں 57 رجمنٹ میں مزید سپاہی نہیں بھرتی کیے جاتے۔ اس سال ، ترک خلافت کے عسکری کالجز سے کوئی طالب علم فارغ التحصیل نہیں ہوا کیونکہ تمام ملٹری کیڈٹس شہید ہو گئے تھے تو ڈگری کس کو دی جاتی۔

مگر گیلی پولی، آبنائے ڈارڈینیلس، چناکلے کسی مقام پر کسی اتحادی افواج کو پناہ نہ ملی۔ برطانیہ، فرانس، روس، نیو فاؤنڈ لینڈ ، آسٹریلیا، نیوزیلینڈ، سب نے اس شکست کو اپنے درمیان برابر تقسیم کیا۔ ننگِ قوم ، ہندوستانی گورکھا سپاہی، جن کے بارے میں معروف تھا کہ کسی بھی پتھر یا درخت کی اوٹ سے ان سے بہتر نشانہ بازی کوئی نہیں کر سکتا ، ان میں سے ایک بھی زندہ واپس نہیں آیا، کسی شجرِ غرقد کے پیچھے ان کو پناہ نہیں ملی۔ مجموعی طور پر 3 لاکھ سے زائد اتحادی سپاہی موت کے گھاٹ اتارے گئے تھے۔

ترکوں نے اپنی ان شہادتوں اور بے مثل قربانیوں کے ثمر سے اپنی ملت کو برقرار رکھا ۔
اس جنگ کے بے شمار ہیروز تھے ، لا تعداد گمنام ستارے تھے، جن کی روشنی نے سب کو رستہ دکھایا مگر ان کا نام کوئی جان نہ سکا۔ سپاہی سید علی ، گیلی پولی کے جزیرے روملی میں توپ خانے کے انچارج تھے۔ 25 مارچ 1915 کو اس توپ خانے کا لفٹر ، جس میں توپ کے گولے لوڈ کیے جاتے تھے، اتحادی افواج کی بمباری اور گولہ باری کی زد میں آ کر ناکارہ ہو گیا تھا۔ چنانچہ سید علی ، 215 کلو گرام ، یعنی تقریباً ساڑھے 5 من وزنی توپ کا گولہ اپنے کندھے پر اٹھا کر لاتے اور خود اس کو توپ کے منہ میں ڈال دیتے۔ ان توپ کے گولوں نے برطانوی بحری بیڑوں ایچ ایم ایس کوئین الزبتھ اور ایگیمیمنون (Agamemnon) کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا ۔ (ٹرائے کی جنگ سے آگاہ سب جانتے ہوں گے کہ چناکلے پر حملہ کرنے والوں نے اپنے بحری بیڑے کا نام ایگیمیمنون کیوں رکھا تھا۔ ) سید علی نے اپنے تدبر اور قوت کے سہارے اس بحری بیڑے الزبتھ کو پسپائی پر مجبور کیا جو برطانوی بحری قوت کی آبرو تھا ۔سید علی کو ان خدمات کے اعتراف میں سلطنت عثمانیہ کی جانب سے گیلی پولی اسٹار دیا گیا، مگر ان کی خدمات کا پورا بدلہ شاید انسانوں کی کوئی حکومت چکا ہی نہیں سکتی۔

بلاشبہ تاریخِ انسانی کے روشن ترین ابواب انہی بلند حوصلوں ، امر جذبوں ، امنگوں اور جراتِ اظہار و انکار کے مرہونِ منت رہتی دنیا تک ایک مثال بن جاتے ہیں۔

Read Previous

ترکیہ اور فن لینڈ کے دو طرفہ تعلقات بہتر کیے جائیں گے، صدر ایردوان

Read Next

شفا تعمیر یونیورسٹی میں سیرت چئیر کا افتتاح، ترک سفیر کی شرکت

Leave a Reply