
ترکیہ میں دہشت گرد تنظیم PKK سے منسلک، پیپلز ایکویلیٹی اینڈ ڈیموکریسی پارٹی کے سیاست دانوں اور PKK کے قید رہنماؤں کے درمیان مذاکرات تیزی سے جاری ہیں، جن کا مقصد چار دہائیوں سے جاری دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے۔
یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب خطے میں شدید عدم استحکام اور اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جن میں غزہ پر اسرائیل کی جاری جنگ، لبنان میں حزب اللہ کی کمزور ہوتی پوزیشن، اور شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد نئی علاقائی ترتیب شامل ہیں۔
یہ حساس عمل اکتوبر میں نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (MHP) کے رہنما، دولت بہچلی کی طرف سے شروع کیا گیا، جنہوں نے ماضی میں PKK کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت کی سختی سے مخالفت کی تھی۔ باہچلی کے اس غیر متوقع موقف کی حمایت، صدر رجب طیب ایردوان نے بھی کی ہے، جس سے یہ مذاکراتی عمل مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
اکتوبر کے بعد، شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں PKK کی شامی شاخ YPG اور ترکیہ کے حمایت یافتہ شامی نیشنل آرمی (SNA) کے درمیان لڑائی میں شدت آ گئی ہے۔ پچھلے ایک ماہ میں شامی نیشنل آرمی نے کئی اہم قصبے YPG/PKK سے واپس لے لیے ہیں۔
حالیہ دنوں میں، DEM پارٹی کے سینئر اراکین نے قید PKK رہنما عبداللہ اوجلان اور صلاح الدین دمیرتاش سے ملاقات کی ہے۔ انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی اپنے مذاکرات کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔
عبداللہ اوجلان، جنہوں نے 1970 کی دہائی میں PKK کی بنیاد رکھی تھی، آج بھی تنظیم کے اندر ایک بااثر شخصیت ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اپنے بھتیجے کے ذریعے بھیجے گئے ایک پیغام میں کہا کہ ،اگر حالات سازگار ہوں تو وہ اس تنازعے کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ، ترکیہ نے PKK کے ساتھ امن قائم کرنے کی کوشش کی ہو۔ اس سے پہلے 2009 سے 2011 تک ناروے کے دارالحکومت، اوسلو میں خفیہ مذاکرات کیے گئے تھے، لیکن وہ ناکام ہو گئے۔
2013 سے 2015 کے دوران بھی ترکیہ نے اوجلان کے ساتھ بات چیت کی، جس کے نتیجے میں ایک جنگ بندی اور PKK ارکان کی شمالی عراق منتقلی ہوئی۔ اس دوران ترکیہ نے کردوں کے حقوق میں بہتری کے لیے اقدامات کیے، جن میں کرد زبان میں نشریات کی اجازت شامل تھی۔ تاہم، یہ عمل 2015 میں PKK کی جانب سے حملوں کے بعد ختم ہو گیا۔
اکتوبر میں دولت بہچلی نے عندیہ دیا کہ، اگر عبداللہ اوجلان تشدد سے دستبردار ہو جائیں اور PKK کو ختم کر دیں تو انہیں پیرول پر رہا کیا جا سکتا ہے۔ یہ بیان ترکیہ کے سیاسی حلقوں میں حیرت کا باعث بنا، کیونکہ باہچلی ہمیشہ سے سخت گیر موقف کے حامی رہے ہیں۔
اس تجویز پر سیاسی و عوامی حلقوں میں ملے جلے ردعمل سامنے آئے ہیں۔ کچھ نے اسے ایک تاریخی موقع قرار دیا ہے، جبکہ دیگر نے اسے PKK کے خلاف نرم رویہ قرار دے کر مخالفت کی ہے۔
ترکیہ کے دارالحکومت، انقرہ کے قریب ایک اہم دفاعی ادارے پر حالیہ PKK حملے، جس میں کئی افراد ہلاک ہوئے، نے اس مباحثے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ یہ واقعہ امن عمل کے مخالفین کے مؤقف کو تقویت دیتا ہے۔
امن عمل کی کامیابی کئی عوامل پر منحصر ہے، جن میں PKK کی جانب سے مکمل طور پر ہتھیار ڈالنے اور ترکیہ کے اندر کرد شہریوں کے لیے مزید حقوق کے نفاذ جیسے اقدامات شامل ہیں۔
یہ کوشش ماضی کے ناکام مذاکرات سے مختلف ثابت ہوگی یا نہیں، یہ آنے والے مہینوں میں واضح ہو جائے گا۔