
طالبان نے امریکہ سے کہا ہے کہ دوحا معاہدے کے تحت یکم مئی تک اپنی فوجیں افغانستان سے نہ نکالیں تو حالات کا خود ذمہ دار ہو گا۔ طابان نے سخت لہجے میں امریکہ سے کہا ہے کہ یکم مئی کے بعد افغانستان میں امریکی فوج پر حملوں کے لئے تیار رہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ اپنے وطن اور مذہب کی حفاظت کے لئے جہاد جاری رہے گا اور اگر افغانستان سے امریکی فوج طے شدہ معاہدے کے تحت واپس نہ گئی تو حالات کی تمام تر ذمہ داری امریکہ پر عائد ہو گی۔ امریکہ اپنے معاہدے کی پاسداری کرے اور یکم مئی سے تمام غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکال لی جائیں۔
طالبان کے ترجمان نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب جرمنی نے اعلان کیا کہ جب تک پارلیمنٹ افغانستان سے فوج واپس بلانے کی منظوری نہیں دیتی اس وقت تک جرمن فوج افغانستان میں قیام کرے گی۔ جرمن چانسلر اینجلا مرکل کی کابینہ نے 31 جنوری 2022 تک جرمن فوج کے افغانستان میں قیام کی منظوری دی ہوئی ہے جب تک یہ مدت پوری نہیں ہوتی جرمن فوج واپس نہیں جائے گی۔
امریکہ کے بعد جرمنی کے سب سے زیادہ فوجی اہلکار اس وقت شمالی افغانستان میں موجود ہیں جن کی تعداد 11 ہزار ہے۔
افغان حکومت نے جرمن وزیر دفاع کے بیان کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا کا یہ مناسب وقت نہیں ہے کیونکہ عام شہریوں پر دہشت گرد بڑھ گئے ہیں۔
افغان قومی سلامی کونسل کے ترجمان رحمت اللہ ایندر نے کہا ہے کہ دوحا معاہدہ طالبان اور امریکہ کے درمیان طے پایا تھا اور اس کا افغان حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس امن معاہدے کے باوجود افغان شہریوں پر دہشت گرد حملوں میں تیزی آ گئی ہے۔
ادھر امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ یکم مئی تک افغانستان سے غیر ملکی فوج کا انخلا ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ترمپ نے فوج کے انخلا کا جو معاہدہ کیا تھا وہ کسی صورت قابل عمل نہیں ہے کیونکہ افغانستان کے حالات پہلے سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ایک قائم مقام حکومت کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے جس میں طالبان کو بھی شامل کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔
ادھر افغان صدر اشرف غنی نے تجویز دی ہے کہ اپریل میں استنبول میں ہونے والی امن کانفرنس کے بعد افغانستان میں قبل از انتخابات کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ استنبول میں افغان حکومت اور طالبان مل کر بیٹھیں اور خطے کے بااثر ممالک کو مذاکرات میں شامل کیا جائے تاکہ بات چیت کسی حتمی تنیجے پر پہنچ سکے۔
افغان صدر نے کہا ہے کہ انتخابات سے پہلے چھ ماہ کا جنگ بندی کا ایک معاہدہ کیا جائے جس پر دونوں فریقین نیک نیتی سے عمل کریں۔
ادھر اس ماہ ماسکو میں ہونے والی افغان امن کانفرنس میں امریکہ، چین، روس اور پاکستان نے طالبان پر زور دیا کہ وہ افغان شہریوں پر حملے روک دیں تاکہ دیرپا قیام امن کی راہ کو ہموار کرنے میں مدد ملے۔
واضح رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان آئندہ ماہ استنبول میں امن مذاکرات ہوں گے جس میں امریکہ، چین، روس، بھارت، ایران اور پاکستان بھی شامل ہوں گے۔ استنبول میں مذاکرات کی تجویز امریکی صدر جو بائیڈن نے دی تھی کیونکہ افغان حکومت دوحا کے بجائے کسی دوسرے ملک میں مذاکرات کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ استنبول میں ہونے والے مذاکرات اقوام متحدہ کی نگرانی میں کئے جائیں گے جس میں خطے کے دیگر ممالک ثالث کا کردار ادا کریں گے۔
One Comment
میں افغانستان طالبان کے اس فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں یہ اک اچھا فیصلہ ہے کیونکہ اللہ ربّ العزت ارشاد فرماتا ہے جب معاہدہ کرو تو پورا کرو اور دونوں فریقوں پر اس معاہدے کی پاسداری لازم ہے