turky-urdu-logo

شام، ترکیہ اور عالمی شطرنج کے کھلاڑی

تحریر: کامران رفیع

شام کی خانہ جنگی نے عالمی طاقتوں کو ایک شطرنج کی پیچیدہ بازی میں الجھا دیا، جہاں ہر ملک نے اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے چالیں چلیں، ۔تاہم، اس کھیل میں ترکیہ نے ایک ایسی حکمت عملی اپنائی جو نہ صرف اسکے اپنے مفادات کی حفاظت کرتی ہے بلکہ شامی عوام کی آرزؤں کے ساتھ بھی ہم آہنگ تھی۔
بشار الاسد کے حامی اور مخالف: تضادات کا کھیل
امریکہ اور اسکے اتحادی!
امریکہ اور اسرائیل نے ہیشہ ایسی پالیسی اختیار کی کہ جس سے شام ہو اور مسلسل انتشار کا شکار رہے ۔ کیونکہ ایک منتشر شام گریٹر اسرائیل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا ۔امریکہ نے 2014 میں داعش کے خلاف کارروائیوں کے بہانے شام میں قدم رکھا، لیکن اس کے عزائم صرف داعش تک محدود نہیں تھے تقسیم ۔ امریکہ نے کرد ملیشیا (YPG) کو بھرپور عسکری اور مالی مدد فراہم کی، جس نے شمالی شام میں ترکی کے لیے خطرہ پیدا کیا۔ YPG کو ترکی میں PKK کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، جو ترک حکومت کے خلاف علیحدگی پسند تحریک چلاتی ہے۔ اسی دوران، اسرائیل نے شام میں ایرانی اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے متعدد حملے کیے، جب کہ ایران نے بشار الاسد کے ساتھ اپنی ملیشیا کے ذریعے اپنے مفادات کو تحفظ دیا۔
جبکہ کرد ملیشیا نے امریکہ اور اسرائیل کی حمایت کے ساتھ بشار حکومت سے صلح کر لی، تاکہ ترکیہ کے اثرات کو کم کیا جا کرد ملیشیا، جسے سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (SDF) کے نام سے جانا جاتا ہے، نے امریکہ اور اسرائیل کی حمایت کے ساتھ شام کی بشار الاسد حکومت سے مفاہمت کی۔ یہ اقدام بنیادی طور پر شمالی شام میں ترکیہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کی کوشش تھی۔ 2019 میں "آپریشن پیس اسپرنگ” کے دوران، ترکیہ نے شمالی شام میں کرد ملیشیا کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، جس کے بعد SDF نے اپنے تحفظ کے لیے بشار حکومت سے مدد طلب کی۔ یہ معاہدہ ایک اہم موڑ تھا کیونکہ کرد ملیشیا اور بشار حکومت کے درمیان تعلقات روایتی طور پر کشیدہ رہے تھے۔ تاہم، امریکہ اور اسرائیل کی اس حمایت کے پیچھے کرد ملیشیا کو مضبوط کرنا اور ترکیہ کے علاقائی عزائم کو محدود کرنا تھا۔ اس مفاہمت کے نتیجے میں شام میں کرد ملیشیا اور بشار حکومت کے درمیان ایک عارضی اتحاد بنا، جو خطے میں ترکیہ کے اقدامات کے خلاف ایک چال سمجھی گئی۔ ایران نے اس اتحاد کو شام کی خودمختاری کے تحفظ اور ترک فوجی مداخلت کے خلاف ایک حکمت عملی کے طور پر دیکھا
ایران
شام میں ایک آزاد خود مختار حکومت جو عوامی امنگوں کی ترجمان ہو نہ اسرائیل و امریکہ کو قبول ہے نہ ہی ایران کو قبول ہے۔ اسی لیے ایران نے ہمیشہ شام کی بعث پارٹی کو سپورٹ کیا تاکہ وہ مقامی آبادی کو کچل سکے۔ 1982 میں جب حافظ الاسد نے حمہ شہر کا محاصرہ کیا اور کم و بیش چالیس ہزارشہریوں کو قتل کیا تو اس وقت بھی شامی مظالم کو ایران کی خمینی حکومت کی حمایت حاصل تھی
۔ یہ اور بہت سے متعدد مواقع ایسے تھے جب ایران اور اسرائیل یا ایران اور امریکہ نے ایک دوسرے کو شام میں "جگہ” دی۔ ان کی دشمنی کے باوجود مقصد پر ان کہا اتفاق تھا کہ شام میں پشار کی کمزور حکومت کو بچا کر رکھا جائے کنونکہ یہ واحد طریقہ تھا کہ جس سے اسرائیل اور ایران شام میں اپنا کھیل جاری رکھ سکتے تھے۔
سعودیہ اور اتحادی!
سعودیہ اور اس کے اتحادی یو اے ای کا کردار بھی کچھ مختلف نہ رہا۔ ابتدا میں سعودی عرب نے شامی مزاحمت کاروں کو مضبوط حمایت فراہم کی اور بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کی بھرپور کوشش کی. تاہم 2017 میں سعودی عرب نے شامی اپوزیشن کو واضح پیغام دیا کہ وہ اب ان کی حمایت جاری نہیں رکھے گا۔ سعودی وزیر خارجہ نے شامی اپوزیشن کو آگاہ کیا کہ ریاض اب اس تنازع میں مزید سرگرم کردار ادا نہیں کرے گا۔ اس کے بعد سعودی عرب نے بشار الاسد کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی راہ اپنانا شروع کی۔
2023 میں سعودی عرب نے بشار الاسد کو عرب لیگ میں دوبارہ شامل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ اقدام اس بات کی علامت تھا کہ سعودی عرب نے اپنے علاقائی مفادات کے لیے شامی حکومت کو قبول کر لیا ہے۔ یہ صورتحال شامی عوام کے لیے مایوس کن رہی، کیونکہ سعودی عرب نے ان کی جدوجہد کو پس پشت ڈال دیا اور اپنے قومی مفادات کو ترجیح دی۔ اور بشار کرد اتحاد جسے اسرائیلی و امریکی سرپرستی حاصل تھی کو عملی طور پر تسلیم کیا
اس سے یہ واضح ہوا کہ امریکہ، اسرائیل، ایران، اور سعودی عرب نے کسی نہ کسی موقع پر بشار کے جبر کو اپنے مفادات کے لیے قبول کیا۔ اس کے برعکس، ترکیہ نے کبھی بھی اپنے اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹ کر بشار الاسد کی جابرانہ حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔
ترکیہ کا کردار
ترکیہ نے 2011 سے لے کر اب تک کبھی بھی بشار حکومت کے معاملے میں لچک نہیں دکھائ ۔ بلکہ متعدد مواقع پر ترکیہ کے صدر نے بشارالاسد اور نیتن ہاہو کے مظالم کو اکٹھے تنقید کا نشانہ بنایہ 2023 اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی خطاب میں بھی اردگان نے دونوں ممالک کی حکومتوں کو انسانی حقوق کی پامالیوں پر ہدف تنقید بنایا۔
اپنے اس واضح اور دوٹوک موقف کی وجہ یہ ہے کہ ترکیہ نے خطے میں اپنی حکمت عملی اور اپنے مفادات کو بڑی نزاکت سے شامی عوام کے مفادات کے ساتھ جوڑ کر آگے بڑھایا۔ اسی لیے ترکیہ نے شام کے تنازعے کو صرف اپنے جغرافیائی مفادات کے تحفظ تک محدود نہیں رکھا بلکہ شامی عوام کے لیے ایک اہم اتحادی کی حیثیت سے خود کو پیش کیا۔ لاکھوں شامی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں جگہ دے کر ترکیہ نے نہ صرف انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا بلکہ دنیا کو یہ بھی دکھایا کہ وہ محض تماشائی نہیں بلکہ شامی عوام کی فلاح کا ایک سرگرم کردار ادا کر رہا ہے۔
ترکیہ نے 2016 سے 2019 کے درمیان مختلف فوجی آپریشنز بھی کیے، جن میں "آپریشن فرات شیلڈ”، "آپریشن اولیو برانچ”، اور "آپریشن پیس اسپرنگ” شامل ہیں۔ ان اقدامات کے ذریعے ترکیہ نے نہ صرف YPG کی پیش قدمی کو روکا بلکہ شمالی شام میں ایک محفوظ زون قائم کیا، جہاں شامی پناہ گزینوں کی واپسی ممکن ہو سکے۔
ترکیہ کے مذکورہ آپریشنز نے نہ صرف YPG اور دیگر مخالف قوتوں کو محدود کیا بلکہ ان کے غیر متوقع اور مؤثر اقدامات نے بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کو حیران اور الجھن میں ڈال دیا۔ ان سب میں ایک کمال بات یہ تھی کہ ترکیہ کے یہ اقدامات امریکہ، ایران، روس، اور بشار حکومت کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت پیدا کرتے رہے، جس سے ترکیہ کی حکمت عملی کو مزید وقت اور جگہ ملی۔ اسی طرح کا قدم ایک سوچی معاہدہ بھی تھا
سوچی معاہدہ اور ادلب کی اہمیت
2018 میں ترکیہ اور روس کے درمیان سوچی معاہدہ ہوا، جس نے ادلب کو غیر فوجی علاقہ قرار دیا۔ اس معاہدے نے شامی اپوزیشن کو ایک پرامن بیس فراہم کیا جہاں سے وہ اپنی مزاحمت کو جاری رکھ سکیں۔ اگرچہ ایران اور امریکہ نے اس معاہدے کی مخالفت کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک نے عملاً اسے تسلیم کر لیا۔ یہ کہنا بے جانا ہوگا کہ یہ سوچی معاہدہ کے نتیجے میں ملنے والی سپیس تھی کہ جس کی بنا پر شامی اپوزیشن کو ادلب میں ایک عملی حکومت قائم کرنے کا موقع دیا جس نے اپنی کارکردگی اور تمام گروہوں سے اپنے برتاو کے ذریعے شامی عوام میں امید کرن جگا دی
اپوزیشن کی کامیابی: دانشمندانہ حکمت عملی
اسی بنا پر مناسب حالات و وقت دیکھ کر شامی اپوزیشن نے بشار کی حکومت کو ایک فائنل دکھا دینے کا فیصلہ کیا کہ جس کے سامنے شامی حکومت اس کے اتحادی یعنی روس و ایران اور دیگر قوتیں یعنی امریکہ و اسرائیل تماشائ بننے پر مجبور ہو گئے۔
آج کے زمینی حقائق کی بنا پر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ شام میں جس فریق نے سب سے زیادہ دانشمندی اور تدبر کا مظاہرہ کیا وہ ترکیہ ہے۔ باقی طاقتیں اپنے اپنے طاقت کے کھیل میں مصروف رہیں، لیکن ترکیہ نے شامی عوام کے لیے ایک نئی امید کی کرن پیدا کی، جو شاید اس پیچیدہ شطرنج کے کھیل میں سب سے بڑی کامیابی ہے۔
بہرحال یہ وقت کا شطرنج ہے ہر ایک اپنی چال چلنے کی کوشش کرتا ہے ۔ دیکھتے ہیں اس بساط پر اگلی چال کیا چلی جاتی ہے

Read Previous

عندلیبِ حمص

Read Next

ترکیہ شام کی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا: صدر ایردوان

Leave a Reply