
شام کے نئے رہنما، احمد الشراع نے عندیہ دیا ہے کہ، ان کی حکومت شام میں فعال دہشت گرد گروہوں، خصوصا داعش، کے خلاف جنگ میں ترکیہ کی حمایت حاصل کرنے پر غور کر سکتی ہے۔
الشراع نے ترک نشریاتی ادارے اے خبر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ،داعش کسی بھی تجویز کو مسترد کرتی ہے۔ ہم نے ان ممالک اور گروہوں کو کھلا خط لکھا ہے جو وائے پی جی/پی کے کے کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمام ممالک سے مدد کی توقع رکھتے ہیں، اور اس حوالے سے ہم ترکیہ کی مدد لینے پر بھی غور کر سکتے ہیں۔
ترکیہ کی وزارت دفاع کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ، شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد نئی شامی انتظامیہ سے رابطہ قائم کیا گیا ہے ،تاکہ شامی فوج کی دفاعی اور سیکیورٹی صلاحیتوں کو مضبوط کیا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق، ترکیہ کی فوجی کا قیام شام میں جاری رہاگا اور ضرورت کے مطابق اس میں تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے۔
شام میں خانہ جنگی کے دوران شمالی علاقوں میں داعش اور پی کے کے/وائے پی جی جیسے دہشت گرد گروہوں نے خطرہ پیدا کیا۔ ان گروہوں کی وجہ سے تشدد کے اثرات ترکیہ میں بھی محسوس کیے گئے، جس کے نتیجے میں ترکیہ نے 2016 سے 2019 کے درمیان سرحد پار متعدد آپریشنز کیے۔
احمد الشراع نے اس بات پر زور دیا کہ ،شام کی تقسیم کا خطرہ اس وقت تک موجود رہے گا، جب تک وائے پی جی/پی کے کے ہتھیار نہیں ڈالتی۔ ہم تمام سفارتی راستے اختیار کرنا چاہتے ہیں اور امن پسند حل کے لیے وقت دینا چاہتے ہیں۔ شام کی علاقائی سالمیت ہمارے لیے ریڈ لائن ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ، ہماری حکومت وائے پی جی/پی کے کے کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے، تاکہ خون خرابہ روکا جا سکے۔ ہم ان مسائل کو عرب اور کرد قبائل کے ساتھ مل کر حل کرنا چاہتے ہیں اور اس میں انقرہ کی مدد شامل ہے۔ شام ترکیہ کی سرحدی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہے۔
شمالی شام کے دریائے فرات کے آس پاس وائے پی جی/پی کے کے کئی علاقوں پر قابض ہے، جہاں وہ ایک خودساختہ کرد خودمختار خطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، شامی قومی فوج اور عرب قبائل نے ان دہشت گردوں سے کئی علاقے، بشمول تل رفعت اور منبج، واپس لے لیے ہیں۔
الشراع نے واضح کیا کہ، شام کی نئی حکومت تمام نسلی اور لسانی گروہوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر رہنا چاہتی ہے۔تمام ہتھیار ریاست کے کنٹرول میں ہونے چاہئیں۔ اگر ریاست کا کنٹرول نہ ہو تو معاملات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔
ترکیہ وائے پی جی کو پی کے کے کا شاخسانہ قرار دیتا ہے، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ترکیہ میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ حاقان فیدان نے کہا ہے کہ، شام کی نئی حکومت کو موقع دیا جانا چاہیے کہ، وہ وائے پی جی کے قبضے اور دہشت گردی کا خاتمہ کرے۔
دوسری جانب، امریکا وائے پی جی کے ساتھ طویل عرصے سے تعاون کر رہا ہے۔ حاقان فیدان سے ٹیلی فونک رابطہ کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ،مارکو روبیو نے شام میں انتقال اقتدار پر زور دیا ہے، تاکہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور شام کسی بھی ملک کے لیے دہشت گردی کی آماجگاہ نہ بنے۔
شام میں حالات کے پیچیدہ ہونے کے باعث ترکیہ، شام کی نئی حکومت، وائے پی جی، اور امریکا کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ تمام فریق شام کی وحدت، استحکام، اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک طویل المدتی حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔