turky-urdu-logo

سلطان محمد فاتح ؛ایں سعادت بزور بازو نیست

(زیر نظر مضمون میری  کتاب “زبان یار من ترکی “ میں شامل ہے)

حدیث احمد المسند میں درج ہے کہ محمد ﷺ نے فرمایا کہ “ تم قسطنطنیہ ضرور فتح کرو گے اس کا امیربہترین  امیر ہو گا اور اس کو فتح کرنے والا لشکر بہترین لشکر ہوگا “

میں سلطان فاتح کے میوزیم میں کھڑا تھا ،میرے سامنے اس خوش قسمت شخص کی زندگی کے اوراق بکھرے پڑے تھے جسے میرے اللّٰہ نے اپنے محبوب مصطفیٰ صلعم کی بشارت کو پورا کرنے کے لئے پیدا کیا تھا۔اس کی زندگی کے یہ اوراق اس کی یاد داشتوں کی صورت میں ہیں اس کے بنائے ہوئے  نقشے ہیں جو شیشے کی الماریوں میں سجے ہوئے ہیں ،یہ وہ نقشے،ہیں  جو وہ دن رات قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لئے بنایا کرتا ،اور یہ وہ یاد داشتیں ہیں جو سب کی سب قسطنطنیہ فتح کرنے کی عزم کی غماز تھیں۔

الماریوں میں سلطان کی  ڈائری اس کا دیوان  اوروہ  ذاتی جنگی اشیاء بھی نمائش کے لئے رکھی گئی تھیں جو اس جنگ میں استعمال ہوئیں اور ہر شئے  سے اس کی  محنت اور مقصد سے  وہ لگن ٹپکتی تھی جو اس نے قسطنطنیہ کی فتح کے لئے کی ایک اور الماری میں دنیا کی اس سب سے بڑی توپ کے حصے نمائش کے لئے رکھے تھے جو اس نے قسطنطنیہ پر حملے کے لئے تیار کروائی تھی ۔اس کے ساتھ ایک شو کیس میں اس زنجیر کا ٹکڑا پڑا تھا جس سے اہل قسطنطیہ گولڈن ہارن کا دہانہ بند کر کے بحری جہازوں کی آمدورفت قسطنطنیہ کی بندرگاہ پر بند کر دیتے تھے اور جو قسطنطیہ پر حملے کے وقت سب سے بڑی رکاوٹ بنی رہی

اس کے بائیں جانب  شیشے کے  ای شوکیس میں وہ دستاویز بھی رکھی تھی جس کی رو سے سلطان محمد فاتح نے ہائیہ صوفیہ کی عمارت اپنی جیب سے پیسے دے کر خریدی تھی اور اب یہ عمارت سلطان محمد فاتح ٹرسٹ کی ملکیت ہے ۔درحقیقت اگر یہ کہا جائے کہ سلطان فاتح قسطنطیہ فتح کرنے کے لئے پیدا ہوا تھا تو یہ غلط نہ ہوگا ۔اللہ نے اس اکیس سالہ نوجوان کے حصے میں وہ سعادت لکھی تھی جس کی آرزو میں حضرت ابو ایوب انصاری حضرت امیر معاویہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسی جلیل قدر ہستیاں ترستی رہیں ۔

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

ایں سعادت بزور بازو نیست

جب تک عطا کرنے والا خدا کسی کو کوئی مرتبہ، صلاحیت اور عزت نہ عطا کرے کسی شخص کے بازو کی طاقت سے وہ رتبہ یا وہ صلاحیت و عزت حاصل نہیں ہوتی ۔

سلطان محمد دوئم تیس مارچ 1432ء کو تیسرے عثمانی دارلحکومت ایڈرنہ میں سلطان مراد دوئم کے ہاں پیدا ہوا اس کی ماں کا نام ہما خاتون تھا جو ایک سربین النسل خاتون تھی ۔گیارہ سال کی عمر میں روایت کے مطابق اسے گورنر بنا کر  اس کی ماں کے ساتھ امیسا بھیج دیا گیا تاکہ وہ حکمرانی کی تربیت حاصل کر سکے ۔اساتذہ اور علماء کی ایک ٹیم بھی اس کے ساتھ تھی جو اس کی تعلیم و تربیت کی ذمہ دار تھی جن میں ملا گورانی اور عشق شمس الدین نمایاں تھے۔

سلطان کی زندگی پر سب گہرا اثر عشق شمس الدین نے چھوڑا اور انہی کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ اس نے نوعمری سے ہی قسطنطیہ کی فتح کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بنا لیا تھا۔وہ دو بار سلطان بنا پہلی مرتبہ اگست  1444ء  سے ستمبر 1446ء تک  دو سال کے لئے اور دوسری مرتبہ فروری 1451ء سے مئی 1481 ء تک تیس سال کے لئے – وہ ساتواں عثمانی سلطان تھا -1443 ء میں اس کا بڑا بھائی شہزادہ علاؤالدین  جو ولی عہد بھی تھا اٹھارہ سال کی عمر میں گھوڑے سے گر کر  اپنے مالک حقیقی سے جا ملا ۔

شہزادے کی موت کا اس کے باپ سلطان مراد دوئم پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ اس کا دل تخت و تاج سے اچاٹ ہو گیا اس نے ہنگری پولینڈ اور دیگر یورپی ریاستوں کے ساتھ دس سالہ معاہدہ امن کیا اور1444ء میں  کاروبار سلطنت  12  سالہ محمد  ثانی کے ہاتھوں میں دے کر  گوشہ نشینی اختیار کر لی وہ بقیہ زندگی عبادت و ریاضت میں گزارنا چاہتا تھا۔  یہ معاہدہ تاریخ میں ایڈرین معاہدہ امن ( Treaty of Edirne) کہلاتا ہے ۔

نو عمر سلطان کے لئے یہ سب کچھ بہت اچانک اور غیر متوقع تھا۔اس کی نا تجربہ کاری ، نوعمری اور اس کے جلیل القدر باپ کی موجودگی اس کے اقتدار کے لئے مشکلات پیدا کرتی رہیں ۔بارہ سالہ شہزادے کی تخت نشینی اور سلطان مراد کی گوشہ نشینی کی خبر یورپ پہنچی تو سارے یورپ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔

پوپ یوجین چہارم نے اسے ترکوں سے نجات کا سنہری موقعہ جانا اور یورپ کا دورہ کر کے سارے یورپ کو ایک جنگی جنون میں مبتلا کر دیا پوپ نے سارے یورپ کی مشترکہ افواج کو ترکوں کے مقابلے پر لاکھڑا کیا۔یہ افواج وارنا میں اکٹھی ہوئیں اور ایڈرنہ پر حملے کی تیاری شروع ہوگئی ان کی قیادت انیس سالہ بادشاہ ولادیسلاف سوئم کر رہا تھا جو پولینڈ اور ہنگری کا مشترکہ حکمران تھا اور یورپ کا سب سے طاقتور حکمران تھا ۔یہ امن معاہدے کی صریحً خلاف ورزی تھی۔عمال سلطنت کے تعاون میں کمی اور اتنی بڑی افتاد سے نو عمر سلطان گھبرا گیا اس نے اپنے باپ سے رابطہ کیا اور اس  سے واپس آکر فوج کی قیادت سنبھالنے کی درخواست کی ۔

سلطان مراد نے  نوجوان بادشاہ کو حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا درس دیا اور عملی اقدام اٹھانے کے بجائے خود سے رابطہ کرنے پر سخت ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔ اس صورتحال میں محمد نے اپنے والد کو خط لکھا کہ "اگر آپ سلطان ہیں تو آئیے اپنی فوج کی قیادت کیجیے، اور اگر میں سلطان ہوں تو میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آئيں اور فوج کی قیادت کریں۔” یہ خط ملتے ہی مراد ثانی نے گوشہ نشینی ترک کی  وہ اس وقت انقرہ کے قریب ایک خانقاہ میں درویشی کی زندگی گزار رہاتھا اور اک زبردست فوج لے کر صلیبیوں کے مقابلے کے لیے روانہ ہوا۔وہ مہینوں کا فاصلہ دنوں میں طے کرتا صلیبی لشکر تک جا پہنچا ۔

وارنا مشرقی بلغاریہ میں بحیرہ اسودBlack Sea  کے کنارے تین ہزار سال پرانا ایک شہر ہے ،جو بلغاریہ کا تیسرا بڑا شہر ہے ۔اس شہر کے باہر  جھیل وارنا کے کنارے  1444ء میں  10 نومبر کو  عثمانی ترکوں اور یورپ کی مشترکہ فوجوں کے درمیان ایک تاریخ ساز جنگ لڑی گئی جسے تاریخ میں ، جنگ وارنا، کے نام سے جانا جاتا ہے ۔

یہ عثمانیوں کی عظیم ترین فتوحات میں سے ایک  ہے ، اس جنگ میں سلطان مراد ثانی کی زیر قیادت عثمانی افواج نے ہنگری پولینڈ ، انگلینڈ ، فرانس بلغاریہ ،اٹلی ،جنیوا  ، بوسنیا چیک ،کروشیا اور لیتھونیا کی مشترکہ افواج کو بدترین شکست دی۔ولادیسلاف سوئم اپنے بھائی سمیت مارا گیا اور یہی وہ جیت تھی جس نے اہل یورپ کی ساری مزاحمت ختم کر کے رکھ دی اور پھر وہ دوبارہ اتنی بڑی تعداد میں ترکوں کے مقابل نہ آ سکے  جس سے قسطنطنیہ کی عظیم فتح کی راہ ہموار ہو گئی۔

اس جنگ کے بعد عمال سلطنت سے مشورے کے بعد مراد ثانی نے حکومت  کی بھاگ دوڑ ایک بار پھر خود سنبھال لی

محمد ثانی کا سلطان کا لقب تو برقرار رہا لیکن اسے اس کی ماں کے ساتھ برصہ کا گورنر بنا کر برصہ بھیج دیا گیا۔تین فروری 1451ء کو سلطان مراد کے فوت ہونے کے بعد انیس سال کی عمر میں وہ ایک بار پھر سلطان بنا،لیکن اس بار وہ تجربے کی بھٹی میں تپ کر کندن بن چکا تھا۔

اس کا مقصد حیات صرف قسطنطیہ کی فتح تھا اس کے روز و شب اسی کی منصوبہ بندی میں گذرنے لگے اس کی ساری توانائیاں اور سارے وسائل قسطنطیہ کو زیر کرنے کی کوششوں میں صرف ہونے لگے ۔وہ سارا دن اور رات قسطنطنیہ کے محل وقوع کے نقشے بناتا اور اکثر ان نقشوں پر ہی سو جاتا ۔

اس نے ساری دنیا سے گولہ بارود اور توپیں بنانے والے کاریگر اکٹھے کئے شہر کی فصیلوں کو توڑنے والے اور ان کے نیچے سے سرنگیں بنانے والے ماہرین کی خدمات بھاری مشاہروں پر حاصل کیں قسطنطنیہ کا محاصرہ کرنے کے لئے اور آبنائے باسفورس کی ناکہ بندی کے لئے قلعے تعمیر کروائے سمندر کی طرف سے ناکہ بندی کے لئے چار سو سے زائد بحری جہاز بنوائے – توپیں بنانے کے لئے کارخانے تعمیر کروائے۔

اس نے دنیا کی سب سے بڑی توپ بیس لیکا Basilica  تیار کروائی  جو ستائیس فیٹ لمبی تھی جسے ستر بیل اور گھوڑے مل کر کھینچتے تھے جس کا ایک گولہ پانچ سو چالیس کلو کا ہوتا تھا اور اس کی مار ڈیڑھ کلو میٹردور  تک تھی اور اس توپ کو چلانے کے لئے چارسو فوجی درکار ہوتے تھے اس توپ کے کچھ حصے میوزیم میں آج بھی محفوظ ہیں ۔دو سال تک بھرپور تیاری کرنے کے بعد چھ اپریل 1453ء کو اس نے تقریباً دو لاکھ کے لشکر کے ساتھ چاروں طرف سے قسطنطنیہ کا محاطرہ کر لیا جو ترپین 53 دن تک جاری رہا ۔اس دوران کئی اتار چڑھاؤ آئے ،سب سے مشکل مرحلہ گولڈن ہارن کا محاصرہ تھا   آبنائے باسفورس سے شہر قسطنطنیہ کے اندر جانے والی خلیج کو "شاخ زریں” Golden Horn کہتے ہیں گولڈن ہارن کے مغربی کنارے پر قسطنطنیہ کا شہر آباد تھا جس کے چاروں طرف فصیل تھی  اور مغربی کنارے پر ایک بہت مضبوط قلعہ تھا جسے گلاٹا یا غلطہ کہتے تھے ۔

گلاٹا کے قلعے اور قسطنطنیہ کی فصیل کے درمیان گولڈن ہارن کے دہانے پر بزنطینی افواج نے ایک زنجیر لگا رکھی تھی، یہ زنجیر گلاٹا کے قلعے سے آپریٹ ہوتی تھی جس کی وجہ سے عثمانی بحری جہاز اس جانب سے شہر کی فصیل کے قریب نہ جا سکتے تھے لیکن وہ جب چاہتے اس زنجیر کو ڈھیلا کر کے اپنے بحری جہاز وں کو گولڈن ہارن کے ذریعے اندر آنے کی اجازت دے دیتے،پھر وہ تاریخی دن بھی آیا جب دنیا نے ایک ایسی جنگی حکمت عملی دیکھی، جس پر وہ آج بھی انگشت بدنداں ہے۔ اس دن سلطان محمد فاتح نے بحری جہازوں کو خشکی پر چلوا دیا۔ سلطان نے شہر کے دوسری جانب غلطہ Galata کے علاقے سے جہازوں کو خشکی پر سے گزار کر اس خلیج میں اتارنے کا عجیب و غریب منصوبہ پیش کیا ۔

سلطان کے اس خیال کو حقیقت بنانے کے لیے عثمانی افواج نے خشکی پر راستہ بنایا جنگل کاٹے درختوں کے بڑے تنوں پر چربی مل کر جہازوں کو ان پر چڑھا دیا گیا۔ علاوہ ازیں موافق رخ سے ہوا کی وجہ سے جہازوں کے بادبان بھی کھول دیے گئے اور تئیس اپریل کو رات ہی رات میں سو عثمانی بحری جہازوں کو  دھکیلتے ہوئے شاخ زریں میں منتقل کر دیا ۔صبح قسطنطنیہ کی فصیل پر کھڑے بزنطینی فوجی اور اہل قسطنطنیہ کو اپنی آنکھو ں پر یقین نہ آیا کہُ یہ خواب ہے یا حقیقت  کیونکہ زنجیر اپنی جگہ قائم تھی اور عثمانی جہاز شہر کی فصیل کے باہر گولڈن ہارن میں کھڑے تھے۔ اس دن اہل قسطنطنیہ کو یقین ہو گیا کہ اب ترک کسی بھی وقت شہر پر قبضہ کر سکتے ہیں ۔

یہ حکمت عملی قسطنطنیہ کی فتح میں سب سے اہم رہی کیونکہ اسی کی بدولت عثمانیوں کو جنگ میں   نہ صرف اپنے حریف پر پہلی بار نفسیاتی برتری حاصل ہوئی بلکہ ان کو اپنی آدھی فوج خشکی کی جانب سے ہٹا کر گولڈن ہارن کی سمت والی فصیلوں پر منتقل کر نا پڑی جس سے ان کے دفاع کو بہت بڑادھچکہ لگا۔

ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب قسطنطیہ میں داخلے کی مسلسل کوششوں کے باوجود بھی کوئی کامیابی نہیں مل رہی تھی اور ترکوں کا بھاری جانی نقصان روز بروز بڑھتا جا رہا تھا ایسے میں وزیراعظم جلیل پاشا اور اس کے ہم نوا دیگر بڑے عمال سلطنت جو پہلے ہی قسطنطنیہ پر حملے کے خلاف تھے انہوں نے محاصرہ اٹھانے کا مطالبہ کر دیا سلطان بہت دل برداشتہ ہوا محاصرے نے طول پکڑ لیا تھا ۔

 فتح کی کوئی صوت نظر نہ آتی تھی  سلطان بہت مایوس تھا  اور محاصرہ ختم کرنے کے بارے میں سوچنے لگا ایک رات حضرت ابو ایوب اسے خواب میں ملے اور  انہوں نے سلطان کو فتح کی بشارت دی اور اپنی قبر کی نشاندہی کی۔دوسری صبح اس نے اپنا یہ خواب اپنے استاد عشق  شمس الدین کو سنایا جنہوں نے اس کی تعبیر کرتے ہوئے تصدیق کی کہ حضرت ابو ایوب انصاری اسی علاقے میں کہیں دفن ہیں ۔اسنے ان  کی مدد سے قبر ڈھونڈ نکالی اور اپنا فوجی مستقر وہاں منتقل کردیا  اور دن میدان جنگ میں اور اپنی راتیں اس مزار پر گزارنے لگا ۔

وہ کہا کرتا تھا کہ اگر حضرت ابو ایوب اٹھانوے سال کی عمر میں رسول اکرم صلعم کی خواہش پوری کرنے کے لئے اتنی بڑی قربانی دے سکتے ہیں تو میں اکیس سال کا نوجوان کیوں کوشش نہیں کرسکتا حضرت ابو ایوب کے ساتھ گذارا ہر لمحہ مجھے قوت بخشتا ہے۔

حضرت ابو ایوب انصاری پہلی عرب بزنطینی جنگ کے دوران 674 ء  میں قسطنطنیہ کی فصیل کے باہر فوت ہوئے تھے اور انہیں فصیل شہر کے باہر دفن کیا گیا تھا اس وقت چونکہ وہ سارا علاقہ رومیوں کے قبضے میں تھا لہذٰا جنگ ختم ہونے کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری کی قبر بھی بے نام نشان ہو گئی  کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں دفن ہیں ۔جب سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا تو فصیل کے باہر کا  وہ علاقہ بھی اس کے زیرنگیں آ گیا جہاں حضرت ابو ایوب انصاری سات سو سال سے سو رہے  تھے ۔

لہذاٰ سلطان کو ان کی قبر ڈھونڈنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی ،اس واقعہ کا تزکرہ ترک تاریخ نگار ادریس بتلیسی نے اپنی کتاب “ ہشت بہشت “ میں بہت تفصیل سے کیا ہے ۔آخر دو سال اور تین مہینے کی سخت کوشش اور 53دن کے محاصرے اورلڑائی کے بعد   29مئی کو میرے نبی اکرم صلعم  کا فرمان سچ ثابت ہوا رومیوں کی سلطنت مسلمانوں کے ہاتھوں ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی اور وہ سعادت جس کی فتح کی حسرت لئے حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے عظیم المرتبہ لوگ دنیا سے رخصت ہوئے جس کی تمنا عالم اسلام کے ہر بڑے بادشاہ اور کمانڈر نے کی ۔

وہ سعادت اور نعمت اللّہ نے اکیس سال کے نوجوان کے نصیب میں لکھی تھی جو اسی نسبت سےتاریخ میں سلطان فاتح کہلایا ۔قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اس نے عام معافی کا اعلان کیا اور عام شہریوں کو جان و مال کی ضمانت دی اور فتح کے  تیسرے  دن جب وہ سفید گھوڑے پر سوار ہو کر ٹوپ کاپی گیٹ سے شہر میں داخل ہوا سارا شہر اس کے استقبال کے لئے امڈ آیا تھا وہ سب سے پہلے ہائیہ صوفیہ میں گیا جہاں اس نے اذان دینے کے بعد دو نفل نماز ادا کی  اور اس کے بعد وہ  ہائیہ صوفیہ کے پہلو میں واقع قیصرروم کے محل  بوکو لئیون Boukoleon Palace  میں پہنچا یہ محل ایک ہزار سال سے قیصرروم کی سرکاری رہائش گاہ تھی اور اسے تھیوڈوس دوئم Theodosius II نے 430 ء میں بنوایا تھا اس  نے محل کی دیوڑھی میں اپنا گھوڑا روکا اور وہ الفاظ کہے جو تاریخ کی کتابوں میں امر ہوگئے۔

پرده‌ داری مى‌كند بر طاق قیصر عنكبوت

جغد نوبت ميزند بر قلعۀ افراسياب

آج قیصر کے محل کے طاق  پر مکڑی نے جالے بن دئیے ہیں ۔جس طرح افراسیاب کے قلعے میں الو بولتے ہیں

“ The spider is curtain-bearer in the palace of Chosroes,�The owl sounds the relief in the castle of Afrasiyab.”

بعد میں سلطان محمد فاتح نے اس محل کو گرا کر اس کی جگہ ایک نیا محل تعمیر کروایا  جس کا نام “سرائے جدید عامرہ “ تھا چوبیسویں عثمانی سلطان محمود اوّل  نے 1775 ء میں اس کا نام بدل کر ٹوپ کاپی محل ( Cannon Gate )کر دیا گیا اور 1887ء تک یہ محل عثمانی سلاطین کی شاہی رہائش گاہ رہا ۔مشہور بزنطینی تاریخ نگار جارج سفرانٹز George Sphrantzes   نے قسطنطنیہ کو فتح ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور وہ تمام واقعات کا چشم دید گواہ تھا اس نے اپنی کتاب میں لکھا ۔

“On the third day after the fall of our city, the Sultan celebrated his victory with a great, joyful triumph. He issued a proclamation: the citizens of all ages who had managed to escape detection were to leave their hiding places throughout the city and come out into the open, as they were to remain free and no question would be asked. He further declared the restoration of houses and property to those who had abandoned our city before the siege. If they returned home, they would be treated according to their rank and religion, as if nothing had changed.”

— George Sphrantzes

اس نے آرتھوڈکس چرچ سے ہائیہ صوفیہ کا سودا کیا اور اپنی جیب سے رقم ادا کر کے ہائیہ صوفیہ ان سے خرید لیا اور اسے مسجد کے طور پر وقف کر دیا اس خرید و فروخت کے دستاویزی ثبوت آج بھی میوزیم میں محفوظ ہیں ۔عیسائیوں کی کتابوں میں ایک پیشن گوئی کا بہت ذکر ملتا ہے کہ “ قسطنطین اوّل قسطنطنیہ کا بانی  ہے اور قسطنطین نام کا قیصر روم ہی آخری حکمران بھی ہوگا اور دونوں کی ماں کا نام ہیلنا ہوگا” اور یہی ہوا قسطنطنیہ کی جنگ میں جس قیصر روم نے سلطان فاتح کا مقابلہ کیا  جنگ کے آخری دن مارا گیا اس کا نام قسطنطین Constantine XI Palaiologos ہی تھا

سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اپنا دارلحکومت ایڈرنہ سے قسطنطیہ منتقل کر دیا اور قیصر روم کا لقب اختیار کیا۔

قسطنطنیہ کی فتح کے علاوہ سلطان فاتح نے  1459ء میں  سربیا 1460ء میں موریا 1461ء میں طرابزون 1462ء میں ولیشیا اور 1463ء میں بوسنیا بھی فتح کئے۔عاشق پاشا زادہ (Aşıkpaşazade)نے اپنی کتاب  “تواریخ  العثمان “ میں لکھا ہے کہ گاؤٹ Gout عثمانی سلا طین کی خاندانی بیماری تھی اور تقریباً تمام ہی سلطان اس بیماری کا شکار رہے ۔اپنی زندگی کے آخری سالوں میں سلطان فاتح بھی اس مرض کا شکار ہوگیا اور چلنے پھرنے میں  دشواری کی وجہ سے اس کا وزن بہت بڑھ گیا تھا۔

اپریل 1481ء میں اس نے اپنی فوجوں کو تیاری کا حکم دیا وہ  مصر پر فوج کشی کا ارادہ رکھتا تھا لیکن تین مئی 1481 ء کو ابھی اس کی فوج قسطنطنیہ میں ہی تھی کہ فرشتہ اجل نے اسے روک لیا اور غالباً ہارٹ اٹیک کے نتیجے میں وہ انچاس سال کی عمر میں بتیس سال حکومت کرنے کے بعد اپنے مالک حقیقی سے جا ملا، اسے سلطان فاتح مسجد کے احاطے میں دفن کیا گیا، اس مسجد سے ملحقہ سلطان محمد فاتح کمپلکس بھی ہےجس میں سات مدرسے ، میڈیکل سکول ، ہسپتال ، لنگر خانہ،  متعدد حمام کئی یتیم خانے اور ہاسٹل قائم ہیں جسے اس کے بیٹے سلطان بایزید دوئم نے بنوایا تھا۔

ادریس بتلیسی نے لکھا ہے کہ “ وہ سلطنت عثمانیہ کے ماتھے کا جھومر تھا جتنی عزت واحترام اس کے دور میں عثمانیوں کو ملی وہ کسی اور سلطان کے مقدر میں نہیں تھی “۔سلطان فاتح ایک ہمہ جہت اور ہشت پہلو شخصیت کا مالک تھا وہ صرف ایک اچھا گھڑ سوار ، فوجی سالار بہترین سپاہی   منتظم اور انجنئیر ہی نہیں تھا  بلکہ بڑا عالم فاضل ، حافظ قرآن بہت اچھا شاعر   , ماہر علم نجوم ،  ماہر الہیات Theologist  اور مذاہب کے تقابلی موازنے کا ماہر بھی تھا ۔

اسے قرآن و حدیث پر مکمل دسترس حاصل تھی اور اسلام کے ساتھ عیسائیت اور یہودی مذاہب پر بھی پوری گرفت رکھتا تھا۔وہ سات زبانوں کا ماہر تھا اور انہیں کسی اہل زبان کی طرح بول سکتا تھاجن میں ترکی ، عربی ، فارسی ، سربین ، لاطینی اور یونانی زبانیں شامل تھیں ۔وہ ایک شاعر بھی تھا اس کا دیوان آج بھی اس کی دیگر اشیاء کے ساتھ میوزیم میں موجود ہے اس کا تخلص “ایونی” تھا جس کے معنی مددگار کے ہیں  ۔اس کی علم دوستی غریب پروری اہل علم کی سرپرستی بھی بہت مشہور تھی ۔اس کے دربار میں دنیا جہان کے عالم شاعر مصنف سائنسدان ریاضی دان اور ماہر علم نجوم جمع رہتے تھے ۔

اس نے حضرت ابو ایوب انصاری کا مقبرہ تعمیر کروایا اور انہیں سلطان ایوب کا خطاب دیا وہ ہفتے میں ایک دو دن ان کے مقبرے پر ضرور گزارتا کرتا تھا ۔

Cihan Yüksel Muslu (2014). The Ottomans and the Mamluks: Imperial Diplomacy and Warfare in the Islamic World. p. 118. “Mehmed presented himself to the world as The Sultan of two lands and the Khan of two seas”

یوسل مسلو نے “  عثمانی اور مملوک میں لکھا ہے کہ “ محمد ثانی نے اپنے آپ کو دو براعظموں کے سلطان اور دو سمندروں کے خان کے طور پر منوایا ہے “ ۔رابی جے نے آکسفورڈ آرٹ جرنل میں اسے فنون لطیفہ کا سرپرست قرار دیا ہے ۔

A Sultan of Paradox: “ Mehmed the Conqueror as a Patron of the Arts”. Oxford Art Journal

Rabi J

Ahmad, Al-Musnad 14:331 #18859: "The Prophet ﷺ is reported to have said, ‘Verily you shall conquer Constantinople. What a wonderful leader will her leader be, and what a wonderful army will that army be!'”

حدیث احمد المسند میں درج ہے کہ محمد ﷺ نے فرمایا کہ “ تم قسطنطنیہ ضرور فتح کرو گے اس کا امیر امیر ہو گا اور کو فتح کرنے والا لشکر بہترین لشکر ہوگا “ ۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

جب تک عطا کرنے والا خدا کسی کو کوئی مرتبہ، صلاحیت اور عزت نہ عطا کرے کوئی شخص اپنے بازو کی طاقت سے وہ رتبہ یا وہ صلاحیت و عزت حاصل نہیں کر سکتا۔

Read Previous

ترکیہ میں اعلی تعلیم کا موقع، لاہور میں ترک جامعات میں داخلوں کے لیے میزاب فیوچر کنسلٹنٹ آفس کا افتتاح

Read Next

قومی پہلوان رضا کایا الپ ترکیہ دیانت فاؤنڈیشن کے ہمراہ پاکستان میں قربانی مہم کا حصہ بن گئے

Leave a Reply