turky-urdu-logo

شمس تبریزی

تحریر : اسلم بھٹی

مولوی ھرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد

یہ کہنا ھے مولانا جلال الدین رومی کا شمس تبریزی کے بارے میں ۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ؛

” اس وقت تک میں ایک عام مولوی ، مولانا روم نہیں بنا تھا جب تک کہ میں نے شمس تبریزی کی غلامی اختیار نہیں کی” ۔

شمس تبریزی ، مولانا رومی کے روحانی استاد یعنی پیر رومی ہیں۔ وہ کامل صوفی ، بزرگ ، اور ولی تھے ۔ مولانا جلال الدین رومی ان کے مرید تھے۔ یہ حضرت شمس تبریزی ہی تھے جنہوں نے ایک مولوی کو مولانا جلال الدین رومی بنا دیا اور انہیں تصوف کی طرف مائل کیا۔ عشق الٰہی میں مستغرق اور سلوک کی منزلیں طے کرائیں ۔ انہوں نے رومی کی دنیا ہی بدل ڈالی اور افکار اور خیالات پر بے پناہ اثر انداز ہوئے۔ مولانا رومی نے انہی سے متاثر ہو کر بہت سی کتب بھی لکھی جن میں ” دیوان شمس ” اور ” مثنوی” غیرہ نمایاں ہیں ۔ مولانا جلال الدین رومی ان سے بہت متاثر تھے۔

شمس تبریزی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے تبریز یعنی ایران کے رہنے والے تھے جہاں وہ 1185 میں پیدا ہوئے اور 1248 میں قونیہ یعنی ترکیہ میں وفات پا گئے۔ ان کا مزار بھی قونیہ ترکیہ میں ہے ۔

شمس تبریزی ایک متصوف ہونے کے ساتھ ساتھ مصنف، شاعر اور مفکر بھی تھے ۔ وہ مولانا کے مرشد تھے اور انہوں نے مولانا کو 40 دن خلوت میں روحانیت کی تعلیم دی۔ مولانا ان سے بے حد عقیدت رکھتے تھے۔ شمس نے ہی مولانا کو راہ حق کی طرف متوجہ کیا ۔ معرفت الٰہی کے اسرار و رموز سکھائے۔

کہا جاتا ہے کہ ایک روز مولانا جلال الدین رومی اپنے شاگردوں کے ساتھ حوض یا نہر کنارے بیٹھے درس و تدریس میں مشغول تھے کہ اس دوران ایک صوفی منش اور عام سا انسان جو کہ شمس تبریزی تھے ، ان کے پاس آیا اور ان سے کتابوں کے بارے میں پوچھا کہ ؛

ایں چیست ؟

( یہ کیا ہے؟ )

مولانا جلال الدین رومی اس وقت شمس تبریزی سے واقف اور آشنا نہیں تھے۔ مولانا رومی نے انھیں ایک عام سا انسان سمجھ کر کہا ؛

” ایں آں علم است کہ تو نمی دانی ” ۔

ترجمہ : ” یہ وہ علم ھے جس کا تجھے علم نہیں ھے "۔

یہ سن کر شمس تبریزی نے وہ کتابیں جو رومی کے پاس پڑی تھیں سب اٹھائیں اور حوض یا نہر میں پھینک دیں ۔
یہ دیکھ کر مولانا جلال الدین رومی شدید پریشان ہو گئے اور خوف میں مبتلا ہو گئے کہ ان کا سارا علم جو کتابوں میں موجود تھا وہ پانی میں چلا گیا۔ مولانا رومی کو پریشان دیکھ کر شمش تبریزی نے ہنستے ہوئے کہا کہ پریشان کیوں ہوتے ہو ؟ ۔ گھبرانے کی نہیں ضرورت نہیں ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے پانی میں اپنا ہاتھ ڈالا اور ساری کتابیں صحیح سلامت واپس مولانا کو لوٹا دیں۔ کتابیں بالکل خشک اور اصلی حالت میں تھیں ۔ یہ دیکھ کر مولانا جلال الدین رومی بہت حیران ہوئے اور شمس تبریز سے پوچھا کہ ؛

ایں چیست؟
(یہ کیا ہے؟ )

اس پر شمس تبریزی نے مولانا کا ہی کہا ہوا جملہ دہرایا یعنی ؛

” ایں آں علم است کہ تو نمی دانی ” ۔

یعنی ” یہ وہ علم ھے جو تجھے معلوم نہیں ھے ” ۔

یہ معجزہ اور کرامت دیکھ کر مولانا جلال الدین رومی ، شمس تبریزی سے بہت متاثر ہوئے اور ان کی ہاتھ پر بیعت کر کے ان کی شاگردی اختیار کر لی ۔ شمس تبریزی اور مولانا جلال الدین رومی دو سال تک اکٹھے رہے ۔ اس دوران شمس تبریزی نے اپنی کشف و کرامات کے ذریعے مولانا جلال الدین رومی کو سلوک اور روحانیت کی منزلیں طے کرائیں ۔

بعد میں شمس تبریزی دمشق روانہ ہو گئے۔ ان کا دمشق جانا تھا کہ مولانا جلال الدین رومی نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ لوگوں سے ملنا اور گفتگو کرنا بند کر دی اور شمس تبریزی کی جدائی میں بیمار پڑنے لگے ۔ آخر کار انہوں نے اپنے بیٹے کو دمشق روانہ کیا جنہوں نے شمس تبریزی کو واپس قونیہ لایا۔

مولانا رومی اور شمس تبریزی کو اکٹھے دیکھ کر بہت سے مریدین اور لوگ خوش نہیں تھے جن میں آپ کے بیٹے بھی شامل تھے۔ لہذا انہوں نے شمس تبریزی کو قتل کر دیا۔

شمس تبریزی کا مزار قونیہ میں ہے جو یونیسکو کی فہرست میں بھی شامل ہے۔

مولانا جلال الدین رومی نے اپنی مشہور تصنیف ” دیوان شمس ” جس میں ان کی مشہور غزلیں اور شاعری ہے، اسے اپنے روحانی استاد یعنی شمس تبریزی کے نام سے منسوب کیا اور” مثنوی” میں بھی ان کا خوب ذکر کیا.

آج اگر مولانا جلال الدین رومی کو صوفیاء اور تصوف میں جو مقام حاصل ھے تو اس کی اہم وجہ شمس تبریزی ہیں ۔

اقوال شمس تبریزی

* راہ حق پر چلنا عقل نہیں ، دل کا کام ھے ۔
* دروازے پر نہیں بلکہ ہمارے دل پر دستک دینے والے کو خوش آمدید کہیں گے۔
* اگر تمہارا دل بدل جائے گا تو تمہاری دنیا بھی بدل جائے گی ۔
* عشق حقیقی یہ ہے کہ آللہ تعالیٰ کی خاطر سب کچھ ترک کر دیا جائے۔
* اگر میں سونا ھوتا تو میری قدر سبھی جانتے۔ میں ایک عام سا لوہا بننا پسند کروں گا تاکہ میری قدر وہی جانے جو مجھے جانتا ہو ۔
* عشق وہ لفظ ھے جو قلم نہیں لکھ سکتی اور یہ کتابوں میں نہیں ملتا۔
* اگر تمہارا کام اللّہ پر منحصر ھے تو سمجھ لیجئے کہ تمہارا یہ کام ھو گیا۔
* عشق حساب و کتاب نہیں بلکہ نصیب کا معاملہ ھے۔
* دنیا مومن کے لیے زندان ھے۔
* اھم یہ ھے کہ پھول کو کانٹوں کے ساتھ ، رات کو تاریکی کے ساتھ اور دوست کو تمام آ لام و مصائب کے ساتھ قبول کیا جائے۔ یہی محبت ہے۔

Read Previous

ترکیہ کا اسرائیل کی سوشل میڈیا مہم کی مذمت ،فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع کا عزم

Read Next

یوم نکبہ_ _فلسطینیوں پر ٹوٹنے والی قیامت

Leave a Reply