
چین کے دارالحکومت بیجنگ میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان سے ملاقات کی ہے ۔
دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان باہمی سفارتی تعلقات بہتر بنانے پر اتفاقِ رائے ہوا۔
ملاقات میں سعودی عرب اور ایران کے سفارتخانے دوبارہ کھولنے کے اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ۔
ملاقات میں دونوں ممالک کے چین میں متعین سفیر اور دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے، سات سال سے زائد عرصے میں دونوں ملکوں کے اعلیٰ ترین سفارت کاروں کی یہ پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔
دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بعد مشترکہ بیان بھی جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق دونوں ممالک باہمی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو دوبارہ بحال کرنے پر رضامند ہوگئے۔
چینی میڈیا کے مطابق سعودی اور ایرانی وزرائے خارجہ نے چینی ہم منصب سے بھی ملاقات کی، دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات کے بعد ایرانی صدر کا دورہِ سعودی عرب متوقع ہے۔
اس حوالے سے ایران کے نائب صدر نے کہا ہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی طرف سے دورے کی دعوت قبول کر لی ہے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب اور ایران نےگزشتہ ماہ چین کی ثالثی میں سفارتی کشیدگی ختم کرنے اور سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو ایران سعودی معاہدے نے امریکا کو پریشان کردیا ہے ۔
مشرق وسطی میں امریکی اثرو رسوخ کی کمی اور چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ نئے بلاک کی تشکیل کی نشاندہی کررہا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار نے واشنگٹن کو پریشان کر دیا ہے۔ اسی ماہ، بیجنگ نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک تاریخی معاہدے کی ثالثی کی جس سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے میں نمایاں مدد مل سکتی ہے۔
سعودی عرب نے چین کے رونگ شینگ پیٹرو کیمیکل کا 10 فیصد خریدنے کے لیے 3.6 بلین ڈالر کے معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے چین کے ساتھ اپنے توانائی کے تعلقات کو بھی واضح طور پر مضبوط کیا، جس سے وہ کمپنی کو روزانہ 4 لاکھ 80 ہزار بیرل خام تیل فراہم کرے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جوں جوں چین اور روس کے ساتھ امریکا کی سرد مہری شدت اختیار کر رہی ہے، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک اپنی عالمی شراکت داری کو متنوع بنانے کا انتخاب کر رہے ہیں۔