
آٹھ برس تک رائٹرز نیوز ایجنسی کے ساتھ بطور اسٹرنگر خدمات انجام دینے والی ایک خاتون فوٹو جرنلسٹ نے ادارے سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں صحافیوں کے منظم قتلِ عام کے تناظر میں رائٹرز اور دیگر مغربی میڈیا اداروں کے کردار کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔خاتون فوٹو جرنلسٹ کا کہنا تھا کہ ان کی تصاویر نیویارک ٹائمز، الجزیرہ اور دنیا کے کئی دیگر نمایاں میڈیا اداروں میں شائع ہوئیں، مگر اب وہ رائٹرز کے ساتھ اپنا تعلق برقرار نہیں رکھ سکتیں۔ ان کے مطابق:’’میں اپنی فلسطینی ساتھیوں کا کم از کم یہ قرض ضرور اتارنا چاہتی ہوں۔‘‘انہوں نے الزام لگایا کہ اسرائیلی افواج کے ہاتھوں الجزیرہ کے صحافی انس الشریف اور ان کے ساتھیوں کے قتل کے بعد رائٹرز نے اسرائیلی دعوے کو بغیر تحقیق شائع کیا کہ انس الشریف ’’حماس کے رکن‘‘ تھے۔ ان کے بقول یہ محض ایک بے بنیاد پروپیگنڈا تھا جسے مغربی میڈیا نے تقویت دی۔انہوں نے مزید کہا کہ ’’ڈبل ٹیپ‘‘ حملوں میں اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر امدادی کارکنوں اور صحافیوں پر دوسرا حملہ کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک حملے میں رائٹرز کے کیمرہ وُومن حسام المصری سمیت پانچ صحافی ہلاک ہوئے۔مغربی میڈیا پر شدید تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، اے پی اور رائٹرز جیسے ادارے اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھا کر جنگی جرائم کو چھپاتے ہیں اور متاثرین کو غیر انسانی انداز میں پیش کرتے ہیں۔انس الشریف کے بارے میں انہوں نے یاد دلایا کہ ان کا کام رائٹرز کے لیے پلٹزر انعام بھی جیت چکا تھا، مگر جب اسرائیلی فوج نے انہیں ’’ہٹ لسٹ‘‘ پر ڈال دیا تو رائٹرز نے ان کا دفاع نہیں کیا۔اپنے استعفے میں انہوں نے کہا:’’میں اب اس پریس کارڈ کو شرمندگی اور دکھ کے سوا کسی جذبے کے ساتھ نہیں پہن سکتی۔ غزہ کے صحافیوں نے اپنی جانیں دے کر جس جرات کا مظاہرہ کیا ہے، میں آئندہ اپنی تمام کوششیں انہی کی قربانیوں کے پیش نظر کروں گی۔‘‘