
دوحہ — غیر معمولی سربراہی اجلاس کے اختتامی اعلامیے میں اسلامی ممالک کے رہنماؤں نے فلسطینی عوام پر جاری "انسانیت سوز حملوں” اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے خلاف سخت اور تاریخی فیصلے کیے ہیں۔ اجلاس میں شریک سربراہان و وزرائے اعظم و وزیر خارجہ نے مشاورت کے بعد متفقہ طور پر قرار دیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تمام سفارتی تعلقات اور تجارتی روابط فوری طور پر معطل کیے جائیں گے، سفارت خانے بند کیے جائیں گے اور سفیروں کو واپس بلانے کے عمل کو یکساں طور پر آگے بڑھایا جائے گا۔
اعلامیے کے مطابق اسرائيل کے خلاف تجارتی پابندیاں وسیع النوع ہوں گی — توانائی، خوراک، ادویات، ٹیکنالوجی اور دفاعی اشیاء سمیت ہر قسم کی درآمد و برآمد اور سرکردہ کاروباری سرگرمیاں روک دی جائیں گی، اس کے ساتھ اسرائیلی اثاثوں کو منجمد کر کے غزہ کی بحالی و تعمیر نو کے لیے استعمال کرنے کی حکمت عملی اپنائی جائے گی۔ فضائی حدود، بندرگاہیں اور ٹرانزٹ راستے بھی بند رکھنے کے فیصلے کیے گئے تاکہ زمینی و سمندری راستوں کے ذریعے کسی بھی طرح کی رسد اسرائیل تک نہ پہنچ سکے۔
اعلامیہ میں سلامتی اور عسکری شراکت داری کے شعبے میں بھی اقدمات شامل ہیں — تمام عسکری اور سکیورٹی معاہدات ختم کرنے، مشترکہ فوجی مشقیں منسوخ کرنے اور اگر جارحیت برقرار رہی تو اجتماعی دفاعی اقدامات نافذ کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ بینکاری و مالیاتی شعبے میں بھی قدغنیں عائد کرنے، اسرائیل کو سرمایہ کی ترسیل روکنے اور بینکنگ لین دین منقطع کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ ثقافتی، میڈیا اور کھیلوں کے شعبوں میں شراکت داری روکنے اور بین الاقوامی سطح پر فلسطین کے حقِ خودارادیت کی وکالت کے لیے مشترکہ میڈیا مہم چلانے پر بھی اتفاق ہوا۔
اعلان میں مصر اور ترکیہ کے لیے خصوصی سفارشات بھی درج کی گئیں — مصر سے درخواست کی گئی ہے کہ غزہ کی سرحدی گزرگاہوں کو انسانی امداد کے لیے کھلا رکھا جائے جبکہ ترکیہ سے توقع ظاہر کی گئی ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ جاری بحری تجارت اور لاجسٹک سرگرمیوں کو ختم کرے۔ اعلامیے نے بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات کے تحت قانونی اقدامات کی حمایت بھی شامل کی ہے اور اقوامِ متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت کے لیے سرگرم مہم چلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
فیصلوں کے نفاذ اور نگرانی کے لیے اجلاس نے "اسلامی دنیا رابطہ کمیشن” کے قیام کی منظوری دی ہے جو رکن ممالک میں عمل درآمد کی نگرانی کرے گا اور جو ممالک فیصلوں پر عملدرآمد نہ کریں ان کے خلاف سیاسی و معاشی اقدامات تجویز کرے گا۔ اعلامیے نے واضح کیا ہے کہ اگر اسرائیل فوری اور خاطرخواہ اقدامات نہ کیے تو اسلامی ممالک اجتماعی سلامتی کے اقدامات سمیت دیگر ضروری قدم اٹھانے کے مجاز ہوں گے۔
دوحہ اعلامیہ نے عالمی برادری بالخصوص اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری اور مؤثر مداخلت کے ذریعے فلسطینی عوام تک بے روک ٹوک امداد پہنچانے، انسانی بحران کو روکے جانے اور جنگی جرائم کی شفاف تحقیقات یقینی بنانے میں کامیاب کردار ادا کریں۔ اجلاس کے شرکاء کا کہنا ہے کہ یہ اعلامیہ پوری امتِ مسلمہ کی مشترکہ آواز اور فلسطینی عوام کے ساتھ غیر مشروط یکجہتی کا ثبوت ہے، اور اب عملی مظاہرے کے ذریعے ان فیصلوں کو جلد از جلد نافذ کیا جائے گا۔