
صدر ایردوان نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے آقویو این پی پی کی پہلی جوہری ایندھن کی ترسیل کی تقریب سے خطاب کیا۔
انکا کہنا تھا کہ آج کی تقریب ایک اہم قدم ہے جس سے ترکیہ کو جوہری طاقت رکھنے والے ممالک میں شمار کیا جائے گا۔
اب ہم پاور پلانٹ میں پر جوہری ایندھن کی تیاری کا مشاہدہ کریں گے، جوآقویونیوکلیئر پاور پلانٹ (NPP) میں پیداواری مرحلے کے آغاز سے پہلے آخری مرحلہ ہے۔ ہمارے پلانٹ کو سمندر اور ہوا کے ذریعے جوہری ایندھن کی ترسیل کے ساتھ، آقیو نے اب نیوکلیئر پاور پلانٹ کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔
اس لیے ہمارا ملک ایک طویل انتظار کے بعد جوہری طاقت کے حامل ممالک کی صف میں شامل ہو گیا ہے۔
اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ یورپی کمیشن نے گزشتہ سال جوہری توانائی کو گرین سگنل دیا تھا اور اس مسئلے پر کسی بھی قسم کے اٹھنے والے سوال کو جڑ سے ہی اکھاڑ دیا گیا تھا، صدر ایردوان نے کہا کہ آقویو ترکیہ کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔
اس اسٹریٹجک قدم کو ملک اور قوم کے لیے خوش آئند قرار دیتے ہوئے، صدر ایردوان نے تمام روسی حکام ، بالخصوص صدر ولادیمیر پیوٹن کے علاوہ ترک اور روسی اہلکاروں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس تعمیر میں تعاون کیا ہے۔
قبل ازیں صدر ایردوان نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن کا ترکیہ کے پہلے جوہری پاور پلانٹ میں تعاون پر شکریہ ادا کیا۔
ایردوان اور پیوٹن کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ترکیہ کے جنوبی صوبے مرسین میں واقع آقویو نیوکلیئر پاور پلانٹ کو باضابطہ طور پر جوہری تنصیب کا درجہ ملنے سے کچھ دیر پہلے ہوئی تھی۔
دو طرفہ تعلقات اور علاقائی پیش رفت کے علاوہ، دونوں رہنماؤں نے روس-یوکرین جنگ اور بحیرہ اسود کے اناج کے معاہدے میں ہونے والی پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
ایردوان نے پیوٹن کو بتایا کہ ایوان صدر کے مطابق، مجوزہ ورکنگ گروپ کے ذریعے نئے منصوبوں پر کام کیا جا سکتا ہے۔
رہنماؤں نے شام میں ہونے والی پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
دریں اثنا، پیوٹن نے صدر ایردوان کی صحت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔
جنوبی صوبہ مرسین میں پلانٹ کے لیے ایک بین الحکومتی معاہدے پر مئی 2010 میں ترکیہ اور روس کے درمیان دستخط کیے گئے تھے۔ پلانٹ کی سنگ بنیاد کی تقریب 3 اپریل 2018 کو منعقد ہوئی جس کے بعد پہلے یونٹ پر تعمیر شروع ہوئی۔
پلانٹ، جس کی نصب صلاحیت 4,800 میگاواٹ اور چار ری ایکٹر متوقع ہے، اس سال کے آخر میں بجلی پیدا کرنا شروع کردے گا۔