
آج فلسطین میں "یوم الارض” جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے۔ ہزاروں فلسطینیوں نے مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس اور غزہ کی پٹی کے شہروں میں یوم الارض منایا۔
فلسطینی ہرسال یوم الارض کے موقع پر ریلیوں، مظاہروں، ہڑتالوں ، متعدد تقریبات اور اسرائیلی سرحد کے قریب زیتون کے درخت لگانے جیسی سرگرمیوں کا اہتمام کرتے ہیں۔
’یوم الارض‘ کیوں منایا جاتا ہے؟
حقائق اور اعداد و شمار:
✓ اندرونی فلسطینی علاقوں باشندے "یومِ ارض ” کو اپنی جدوجہد کے سب سے نمایاں ایام میں شامل کرتے ہیں جس نے ان کی بقا اور شناخت کو محفوظ رکھا۔
✓ مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی تعداد تقریباً 3.1 ملین ہے جب کہ 1948 میں ان کی تعداد صرف ڈیڑھ لاکھ تھی۔
✓ ارتھ ڈے کے واقعات 1976 کے ہیں جہاں ایک طرف اندرون فلسطین میں قابض ریاست کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف مقامی فلسطینیوں کا پہلا براہ راست تصادم ہوا۔ پرامن مظاہروں کے دوران قابض فوج نے نہتے فلسطینیوں کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کیاجس کے نتیجے میں چھ فلسطینی شہید، 49 زخمی ہوئےجب کہ تین سو فلسطینیوں کو پابند سلاسل کردیا گیا۔
شہید ہونے والے چھ فلسطینیوں کی شناخت
نام عمر آبائی شہر تاریخ شہادت مقام شہادت
خیر احمد یاسین 23 سال عرابہ البطوف 3/29/1976 عرابہ
خدیجہ قاسم شواہنہ 23 سال سخنین 3/30/1976 سخنین
رجا حسین ابو رایا 23 سال سخنین 3/30/1976 سخنین
خضر عید محمود خلایلہ 30 سخنین 3/30/1976 سخنین
محسن حسن سید طحہٰ 15 سال کفر کنا 3/30/1976 کفر کنا
رفعت علی زادی 21 سال نور شمس کیمپ 30/3/1976 طیبہ
30 مارچ 1976 سے قبل پیش آنے والے واقعات
✓ 1975 (دی الجلیل ڈویلپمنٹ پروجیکٹ)۔ یتزاک رابن کی سربراہی میں اسرائیلی حکومت کا الجلیل کے علاقے کو یہودیانے کے منصوبے کے بارے میں اعلان سامنے آیا۔
جلیل ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے نام سے مشہور اس نام نہاد تعمیراتی اسکیم کا مقصد عرب شہریوں کی ملکیتی زمینوں پر یہودیوں کو آباد کرنا تھا۔ اس علاقے میں عرب باشندں کی آبادی اکثریت میں تھی جسے اقلیت میں بدلنے کے لیے یہ پروجیکٹ شروع کیا گیا۔
✓ 18اکتوبر 1975.. عرب سرزمین کے دفاع کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی۔ یہ کمیٹی مقامی کمیٹیوں کے اندر سے لیے گئے منتخب افراد پر مشتمل تھی جس کا انتخاب ناصرہ شہر میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا۔
✓29 فروری1976ء: قابض اسرائیلی حکومت نے سخنین، عرابہ، دیر حنا اور عرب السواعد کے مقاما پر فلسطینی کاشت کاروں کی 21 ہزار دونم اراضی پر قبضے کی منظوری دی تاکہ ان مقامات پر مزید یہودی کالونیاں بنائی جا سکیں۔
✓مارچ 1976ء: فلسطینی اراضی پر اسرائیلی ریاست کے غاصبانے قبضے کے مسلسل پیش آنے والے واقعات اور ان کی روک تھام پر غورکے لیے دفاع اراضی کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس اجلاس میں کمیٹی نے متفقہ طورپر 30 مارچ کو ایک روزہ ملک گیر ہڑتال کی کال دی۔
✓29 مارچ 1976ء: اس روز قابض اسرائیلی حکومت نے سخنین، عرابہ، دیر حنا۔ طرعان، طمرہ اور کابول کے مقامات پر شام پانچ بجے سے کرفیو لگا دیا اور ہرقسم کے مظاہروں کو غیرقانونی قرار دیا گیا۔ اسرائیلی پولیس نے اعلان دھمکی دی کہ احتجاج کی کوشش پر اکسانے والوں کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے گی۔
✓30 مارچ 1976ء: اسرائیلی ریاست کی طرف سے طاقت کے استعمال کی دھمکیوں کے باوجود تمام فلسطینی آبادیوں میں ہڑتال کی گئی۔ شمال میں الجلیل سے جنوب میں جزیرہ نما النقب تک فلسطینی اراضی پر غاصبانہ قبضے کے خلاف جگہ جگہ احتجاجی مظاہرےکیے گئے۔ دوسری طرف احتجاج روکنے کے لیے قابض حکومت نے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا۔ مظاہروں کو روکنے کا ٹاسک اسرائیلی فوج کے بدنام زمانہ جنرل رفائیل ایٹن کو دیا گیا تھا۔ اس نے بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں سے لیس فوج کے ذریعے اندرون فلسطین کی عرب آبادیوں پر چڑھائی کردی اور فلسطینیوں پر اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں۔ قابض فورسز کی فائرنگ سے چھ فلسطینی شہید ہوئے۔ چار فلسطینی اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے جب کہ دو قابض پولیس کی فائرنگ سے شہید ہوئے۔ ان کے علاوہ سیکڑوں فلسطینی زخمی بھی ہوئے۔
اشارات
فلسطین میں ’یوم الارض‘ کے حوالے سے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک سب سے پرتشدد تحریک ہے جو سنہ 1948ءمیں فلسطین پر اسرائیلی تسلط جمائے جانے کےبعد فلسطین کی عرب اقلیت کی طرف سے قابض ریاست کے خلاف سب سے بڑا چیلنج قرار دیا جاتا ہے۔
دوسری طرف فلسطین بھر میں’یوم الارض‘ کو قابض دشمن کے خلاف جاری جدو جہد اور فلسطینی سرزمین کی چوری روکنے کی کوششوں کے حوالے سے اہم سنگ میل قرار دیا گیا۔
یوں 30 مارچ 1976ء سے آج تک اندرون اور بیرون ملک مقیم فلسطینی پورے قومی جذبے کے ساتھ یہ دن مناتے ہیں۔ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دوسرے ممالک کے باشندے بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ سب مل کریوم الارض کو اپنی سرزمین کے حصول اور حق واپسی کے عزم کی تجدید کے طورپر مناتے ہیں۔