
فلسطینی مزاحمتی گروہوں، حماس اور اسلامی جہاد نے امریکی صدر،ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ کو صاف کرنے اور وہاں کے عوام کو منتقل کرنے کی تجویذکی مذمت کی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے فوری ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن ایک انتہا پسند وزیر نے ٹرمپ کی اس تجویذکوشاندارقرار دیاہے۔
جنگ بندی کے دوران ہفتے کو یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ ہوا، جس میں چار اسرائیلی خواتین فوجیوں کو رہا کیا گیا اور 200 فلسطینی قیدیوں کو آزادی ملی۔ تاہم، دونوں فریقین نے ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔
ٹرمپ نے غزہ کو ایک تباہ شدہ علاقہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ، انہوں نے اردن کے بادشاہ، عبداللہ دوم سے بات کی ہے ،تاکہ غزہ کے فلسطینیوں کو وہاں سے ان کے ملک منتقل کرنے پر غور کیا جا سکے۔ ٹرمپ نے مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی سے بھی اس حوالے سے بات کرنے کا عندیہ دیا۔
حماس کے سیاسی بیورو کے رکن، باسم نعیم نے کہا کہ فلسطینی عوام اس طرح کی تجویز کو مسترد کریں گے اور ایسے منصوبوں کو ناکام بنائیں گے، جیسے ماضی میں متبادل وطن کے منصوبوں کو ناکام کیا گیا۔
اسلامی جہاد نے ٹرمپ کتجویذ کو قابل مذمت قرار دیا اور کہا کہ، یہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیر خزانہ۔ بیزالیل سموٹریچ نے ٹرمپ کی تجویز کو بہترین خیال قرار دیا اور کہا کہ ،نئے حل ہی امن اور سلامتی کا سبب بن سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق، اسرائیل کی 15 ماہ کی جنگ کے نتیجے میں غزہ کی 70 فیصد عمارتیں تباہ یا نقصان زدہ ہو چکی ہیں، اور وہاں کے لوگوں کو بار بار بے گھر ہونا پڑا ہے۔