turky-urdu-logo

دفاعی معاہدہ… سعودیہ پاکستان ، یک جان دو قالب

تحریر : نواز کمال

قطر پہ اسرائیلی حملے کا ردعمل سامنے آنا شروع ہوچکا ہے. پاکستان سعودیہ دفاعی معاہدہ اس کا نقشِ اول تھا. اس اولین جھلک نے قطر سمٹ کے حقیقی اعلامیے کے رخ سے دھیرے دھیرے نقاب اٹھانا شروع کر دیا ہے.قطر پہ اسرائیلی حملہ نقطہء انتہا تھا. اس جملے کی گہرائی اور گیرائی جاننے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عالمِ اسلام کی چار تہیں ہیں. عالمِ عرب سے باہر کی دنیا یعنی عجم. دنیائے عرب کی بالائی تہہ فلسطین ہے. اس سے نچلی پرت میں غیر خلیجی ممالک آتے ہیں، جیسے لبنان، مصر ، اردن اور شام وغیرہ.

نہایت اندرونی تہہ…….. جسے مرکز کی حیثیت حاصل ہے……. میں چھ خلیجی ممالک واقع ہیں. متحدہ عرب امارات، قطر ، بحرین، کویت، اومان اور سعودی عرب. اسرائیل نے عجم سے چھیڑ چھاڑ کی ابتدا ستر کی دہائی میں یوگنڈا میں ایک آپریشن کرکے کی تھی، مگر یوگنڈا مسلم ملک نہیں تھا. دنیائے عرب سے باہر پہلی بار صیہونی ریاست کی بربریت کا نشانہ بننے والا مسلم ملک تیونس تھا، جب 1985 میں اسرائیل نے دارالحکومت تیونس سٹی میں واقع فلسطینی مزاحمتی تنظیم پی ایل او کے مرکز پہ حملہ کیا، جس میں لگ بھگ ستر افراد شہید ہوئے تھے. 2012

میں سوڈان پہ حملہ کیا. سرزمینِ عرب کی بالائی پرت فلسطین تو سن اڑتالیس سے اس اژدھے کی زہرناکیوں کا سامنا کر رہی ہے. اس سے نچلی تہہ مصر ،عراق، شام اور لبنان وغیرہ متعدد بار اس سفاک درندے کی درندگی کا نشانہ بن چکے. البتہ عرب کا قلب ابھی تک مامون و محفوظ تھا. قطر وہ پہلا خلیجی ملک ہے ، جسے اسرائیل نے گزشتہ دنوں نشانہ بنایا. بحرین اور متحدہ عرب امارات تو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر چکے.

قطر پہ حملہ ہوچکا. باقی رہے کویت، اومان اور سعودی عرب. ان میں سے کویت اور اومان کو سرِدست خطرہ نہیں ہے، کیوں کہ یہ نہ تو تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں . اب رہ گیا صرف سعودی عرب. قطر پہ حملہ گویا اس بات کا واشگاف اعلان تھا کہ سرزمینِ عرب کے سب سے اہم ملک سعودی عرب کو محتاط رہنا چاہیے. من مانی کی صورت میں اگلا ہدف بن سکتا ہے.جو بات ہم یہاں پاکستان میں بیٹھ کر سمجھ پا رہے ہیں ، ایسا تو ممکن نہیں کہ عرب ریاستیں نہ سمجھ پاتیں. فلسطین تو ہاتھ سے گیا، باقی ریاستوں کے لیے اپنا اپنا وجود بچانے کا چیلنج درپیش ہے.

وہ اس حقیقت کو پا چکی ہیں کہ امریکا ان کے ساتھ مخلص نہیں. اس کی دلی ہمدردی اسرائیل کے ساتھ ہے. عربوں کی سادگی کہ امریکا کو چپے چپے پہ آشیاں بندی کرنے دی اور امریکا نے ہر ملک میں ٹھکانے بنا لیے، مگر حیرت انگیز امر یہ ہے کہ کسی بھی عرب ملک کا صاحب بہادر سے دفاعی معاہدہ نہیں ہے. امریکا نے منہ زبانی دفاع کا کہہ دیا اور عقال پوش خوشی سے نہال ہو گئے. انہیں فوجی تربیت اور ہتھیاروں کی فراہمی جیسے کھلونے پکڑا دیے، مگر ویسے دفاعی معاہدے کر کے نہ دیے، جس طرح کے معاہدے جنوبی کوریا، نیٹو کے رکن ممالک اور جاپان کے ساتھ کر رکھے ہیں.

جن کی رو سے اگر جنوبی کوریا، نیٹو کے کسی بھی رکن ملک یا جاپان پہ حملہ ہو تو امریکا ان کے دفاع کا پابند ہے.کہنے کو تو بحرین جیسا ننھا سا ملک امریکا کا نان نیٹو اتحادی ہے، جو پانچویں امریکی بحری بیڑے کا میزبان بھی ہے. متحدہ عرب امارات سے جاتے سال میں تگڑے معاہدے کیے گئے ہیں، مگر معاہدوں کی اس فہرست میں دفاعی معاہدہ موجود نہیں ہے. یہی عالم اردن کا ہے.سعودی عرب کی کہانی بڑی دلچسپ ہے. 1948 میں جب اسرائیل نامی ناسور پھوڑا بن کر اسلامی دنیا کے وجود پہ ابھرا تو کسی بھی مسلمان ملک نے اسے تسلیم نہیں کیا. 1973

کی جنگ، جنگِ یومِ کپور میں مصر نے میدان مار کر سن سڑسٹھ کی ہزیمت کے کچھ داغ دھو ڈالے تو اس کے بعد امریکی صدر جمی کارٹر کو خیال ہوا کہ دونوں ریاستوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا جائے. چنانچہ 1978 میں مصر اور اسرائیل کے مابین کیمپ ڈیوڈ معاہدہ طے پایا ، جس کی بنیاد پر 1979 میں دونوں دیرینہ حریف ریاستوں نے ایک دوسرے کو تسلیم کر لیا. یہ اسرائیل کے لیے مسلم دنیا میں گنجائش پیدا کرنے کی پہلی کوشش تھی. دوسری کوشش 1993 میں کی گئی، جب اوسلو معاہدہ ہوا اور دو ریاستی حل پیش کیا گیا. اس معاہدے کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل نے ایک دوسرے کو تسلیم کر لیا.

اگلے ہی سال اردن نے بھی اسرائیل سے معاہدہ کرکے اس کے وجود کو سندِ جواز عطا کی . تیسری اور حتمی کوشش کا آغاز 2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے پچھلے دورِ صدارت کے دوران ہوا. اس بار عالمِ اسلام کا قلب مٹھی میں لینے کی کوشش کی جانے لگی. اب کی بار سعودی عرب کو قائل کیا جانے لگا کہ وہ ابراہام معاہدے کا حصہ بن کر اسرائیل کے سراپے پر مہرِ تصدیق ثبت کرے. اس مقصد کے حصول کے لیے ایران کو مشرقِ وسطیٰ میں بےلگام چھوڑ دیا گیا. چنانچہ ایران نے عراق سے آگے بڑھ کر شام اور یمن کو اپنے دستِ تصرف میں لے کر سعودی عرب کے گردا گرد شکنجہ کس دیا.

اس دھینگا مشتی میں بحرین اور متحدہ عرب امارات عالمِ اسلام کے ہاتھ سے پھسل کر تل ابیب کے دامنِ خوں رنگ سے وابستہ ہوگئے.جب سعودی عرب کے پاس کوئی چارہ نہ رہا تو اس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے امریکا کے سامنے دو شرائط رکھ دیں. پہلی شرط یہ کہ اسے جوہری صلاحیت کے حصول میں مدد فراہم کی جائے. دوسری شرط یہ کہ امریکا اس کے ساتھ اسی سطح کا دفاعی معاہدہ کرے جس سطح کا معاہدہ اس نے نیٹو کے رکن ممالک، جاپان یا جنوبی کوریا کے ساتھ کر رکھا ہے.

اُدھر امریکا کی یہ حکمت عملی کہ اس قدر اونچی سطح کی یاری کا حقدار صرف اسرائیل ہے. اب تقاضے اور ٹال مٹول کی آنکھ مچولی شروع ہو گئی. اس دوران محمد بن سلمان کو یہ تک کہنا پڑا کہ اگر وہ اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ انہیں بھی انور سادات کی طرح قتل کر دیا جائے. اصرار و گریز کی یہ کشمکش جاری تھی کہ 7 اکتوبر 2023 کا وہ زلزلہ انگیز لمحہ آ پہنچا جب حما.س کے شیر اپنی کچھار سے نکلے اور گیدڑوں کے ریوڑ پر پل پڑے. اس کے ساتھ ہی ابراہام اکارڈ طاقِ نسیاں کا رزق بن گیا.پاکستان اور سعودی عرب کے مابین طے پانے والے معاہدے نے ایسی متعدد باتوں کو نصف النہار کا سورج بنا دیا ہے، جن کا دوحہ کے اعلامیے میں کہیں ذکر نہ تھا. ایک تو یہ کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں قصہء پارینہ بن چکیں. دوسرا یہ کہ امریکا اگر عرب سرزمین پر موجود ہے تو اس کی حیثیت گھس بیٹھیے کی سی ہے.

اس پہ اعتبار کے تمام کینگرے ایک ایک کر کے گر چکے. اب عربوں کو ایسی کوئی بھی خوش گمانی نہیں ہے کہ مشکل وقت میں امریکا بہادر ان کی مدد کرے گا. یہ اس بات کا بھی وسطِ قلب سے اقرار ہے کہ اب پاکستان اس قابل ہوچکا کہ اس پر دفاع کے باب میں کامل یقین اور پورے اطمینان کے ساتھ اعتماد کیا جاسکے. ابھی تو سعودیہ اور پاکستان باہم بغل گیر ہوئے ہیں، جلد ہی اس دشت کی طرف اور بھی دیوانے آتے دکھائی دیں گے. کم از کم مزید دو عرب ریاستیں اپنے گھوڑوں پہ زین کس رہی ہیں.

اس معاہدے کے بعد پاکستان اور اسرائیل بطورِ حریف گویا ایک دوسرے کے بالکل آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں. تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں مدمقابل مخاصمت کے انتہائی اندرونی دائرے میں آچکے، جہاں ٹکراؤ کے امکانات سو فیصد روشن ہیں. گویا اہل عرب نے ہاتھ کھڑے کر دیے اور پرچم پاکستان کو تھما دیا، جو مقدمۃ الجیش کے اولین سپاہی کے روپ میں شعلے اگلتی آنکھوں اور تنی ہوئی مونچھوں کے پورے بانکپن کے ساتھ دشمن کے رو بہ رو کھڑا ہے. اس ساری سرگرمی کا پوشیدہ مگر نہایت پرلطف پہلو اور بھی ہے. سعودی عرب کا رخ صرف پاکستان کی جانب نہیں مڑا ہے، بلکہ یہ دفاعی معاہدہ چینی کیمپ کی جانب قدم بڑھانے کے مترادف ہے.

اب یہ شاہراہ ریاض سے اسلام آباد اور پھر اسلام آباد سے بہت آگے خاکِ کاشغر سے ہوتی ہوئی بیجنگ تک جاتی دکھائی دے رہی ہے. پاکستان کی جانب سے امریکا کی بےاعتبار دوستی چھوڑ کر چین سے یارانہ گانٹھنے کا تجربہ دنیا کے سامنے ہے. ایک زمانہ وہ تھا جب پاکستان سو فیصد امریکا اور امریکا کے ہتھیاروں پہ تکیہ کیا کرتا تھا اور ایک زمانہ یہ ہے کہ تقریباً اسی فیصد دفاعی پیاس چین کے چشموں سے بجھائی جارہی ہے.

یہ تو امریکا کی سفاک چودھراہٹ ہے ، جس کی وجہ سے اس سے ظاہراً بنا کے رکھنی پڑ رہی ہے، ورنہ اب پاکستان کا دل مغرب کے سنہرے بالوں کی بجائے مشرقی اپسرا کی کالی زلفوں کا اسیر ہوچکا ہے. یہی وجہ ہے کہ ایران، چین، روس اور تاجکستان افغان حکومت پہ دباؤ بڑھائے ہوئے ہیں. اسی دباؤ کے زیرِ اثر پرسوں ٹی ٹی پی نے حکومتِ پاکستان سے مذاکرات کی دہائی دی ہے. عرب بھی اگر اپنے ایک بہادر اور جری بھائی کے بازوؤں کی مچھلیوں پہ بھروسہ کرتے ہوئے اِدھر کا رخ کر رہے ہیں تو آنکھ مسرت سے چمک کر روشن اور دل خوشی سے کھل کر گلاب.اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ ان باتوں کا قطر سمٹ کے اعلامیے میں کیوں ذکر نہیں کیا گیا؟ بھئی حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں. عرب بال بال امریکا کی گرفت میں ہیں. لاغر ہیں. کمزور ہیں. وہ اس جوگے نہیں کہ نقارے پہ چوٹ کر کے مخالف سمت میں خرام کریں.

ان کے لیے ضروری ہے کہ زیریں لہروں کی طرح غیر محسوس انداز میں کروٹ بدلیں. ویسے بھی سمٹ گویا چوراہے میں برپا محفل ہے. کرنے کے کام تو پردوں میں کیے جاتے ہیں . اسی لیے ہم نے کہا تھا کہ اعلانات وہ نہیں ہیں جو کیے گئے، بلکہ اصل اعلانات وہ ہیں جو عمل و اقدام کی صورت میں آئندہ کیے جائیں گے. سو قطر سمٹ کے اعلامیے کی شق نمبر ایک دنیا کے سامنے آچکی. پردہء غیب سے بہت کچھ منصہء شہود پہ آنے والا ہے.پاکستان کو محافظ الحرمین الشریفین کا منصب مبارک ہو!نواز کمال

Read Previous

کورولش اورحان سیریز کی اسکرپٹ ریڈنگ مکمل ، نئی سیریز جلد منظر عام پر ہوگی

Read Next

استنبول میں چغتائی آرٹ ایوارڈز 2025 کا انعقاد ، سفیر پاکستان اور نائب گورنر استنبول کی شرکت

Leave a Reply