turky-urdu-logo

پاک—سعودی اسٹریٹجک معاہدہ،، خطے میں طاقت کی نئی جہت

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان "اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدہ” (SMDA) خطے کی جغرافیائی سیاست میں غیر معمولی تبدیلی ہے۔ اگرچہ معاہدے کی مکمل تفصیلات عوامی سطح پر جاری نہیں کی گئیں، تاہم سرکاری بیانات اور غیر رسمی تبصروں سے یہ بات واضح ہے کہ یہ صرف ایک روایتی دفاعی تعاون کا معاہدہ نہیں، بلکہ ایسا ڈھانچہ ہے جو آنے والے برسوں میں خطے میں قوت کے توازنِ کو نئی سمت دے گا۔

اس معاہدے کا اہم ترین اور بنیادی نکتہ یہ ہے۔۔۔۔۔ "کسی ایک فریق پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا”۔ یہ شق اس معاہدے کو ایک علامتی دفاعی اعلان سے بڑھا کر ایک حقیقی عسکری گارنٹی میں بدل دیتی ہے۔ جس کے تحت پاکستان اور سعودی عرب عسکری تربیت، مشترکہ مشقوں، دفاعی صنعت میں تعاون، اور لاجسٹک سہولتوں کے تبادلے کے علاوہ انٹیلی جنس جیسے حساس شعبوں میں بھی مکمل شراکت کریں گے۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک نے اپنے دفاعی تعلقات کو مکمل رسمی اور ادارہ جاتی شکل دے دی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ معاہدے میں بعض پہلو جان بوجھ کر مبہم رکھے گئے ہیں۔

نیوکلیئر ہتھیاروں یا ایٹمی تعاون کا براہِ راست ذکر نہیں کیا گیا، لیکن دنیا بھر کے تجزیہ کاروں نے اس کو “نیوکلیئر ڈٹرنٹ” اور “سعودی عرب کے لیے نیوکلیئر چھتری” سے تعبیر کیا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ خلیجی ممالک اسرائیلی کی "ایٹمی صلاحیت” سے خوف زدہ تھے اور وہ کسی نہ کسی طرح ایٹمی تحفظ چاہتے تھے۔ امریکہ کے قطر پر حملے کے دوران کردار نے پاکستان ایک قدرتی شراکت دار بنے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ اس معاہدے کے متن میں “All means” کا مبہم حوالہ اسی اسٹریٹیجک ابہام کا حصہ ہے تاکہ عالمی دباؤ سے بچتے ہوئے دونوں ممالک اپنی آپشنز کھلے رکھ سکیں۔یہ قوی امکان ہے کہ مستقبل میں یہ معاہدہ صرف پاکستان اور سعودی عرب تک محدود نہیں رہے گا۔

کویت اور بحرین جیسی ریاستیں، جو پہلے ہی اپنے دفاع کے لیے سعودی عرب پر انحصار کرتی ہیں، اس معاہدے میں فوری شمولیت اختیار کر سکتی ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے ساتھ قریبی دفاعی تعلقات رکھنے والے قطر کے بھی معاہدے میں شمولیت کے واضع امکانات ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ معاہدہ ایک "اسٹیٹجک دفاعی اتحاد” کی شکل اختیار کر لے گا۔ دوسری جانب اس پیش رفت نے براہِ راست امریکا کی مڈل ایسٹ پالیسی پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ دہائیوں سے خلیجی ریاستیں امریکی دفاعی ضمانتوں پر انحصار کرتی آئی ہیں۔

امریکی فوجی اڈے، بحری بیڑے اور خلیجی ممالک کو امریکی اسلحے کی فروخت واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون رہے ہیں۔ لیکن قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد، پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان یہ معاہدہ واضح کر رہا ہے کہ خلیجی ریاستیں اب امریکا پر اندھا دھند انحصار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس سے امریکا کی خطے میں روایتی برتری کو دھچکا پہنچا ہے۔ امکان ہے کہ واشنگٹن کو اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔اسی طرح اسرائیل کے لیے یہ معاہدہ ایک سنگین سیاسی پیغام ہے۔

مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی فوجی طاقت اور نیوکلیئر اجارہ داری چیلنج ہو گئی ہے۔ معاہدے میں شامل کسی ایک ملک پر حملے کی صورت میں اسرائیل کو مشترکہ اور مربوط عسکری جواب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری طرف خلیجی ممالک کا امریکہ پر دفاعی انحصار کم ہونے سے اسرائیل کے لیے سفارتی خطرہ پیدا ہو جائے گا۔

کیونکہ اب یہ ممالک اسرائیل کی جارح پالیسیوں پر دباؤ ڈالنے کے قابل ہو جائیں گے۔ادھر جنوبی ایشیا میں بھارت کے لیے اس معاہدے کے اثرات مزید پیچیدہ ہیں۔ بھارت کی کوشش رہی ہے کہ وہ خلیجی ریاستوں کے ساتھ گہرے اقتصادی تعلقات قائم کر کے پاکستان کو سفارتی طور پر کمزور کرے۔ لیکن سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ اس طرح کا دفاعی معاہدہ ان کوششوں کے لیے بڑا دھچکا ہے۔

سعودی عرب مستقبل میں بھارت کے ساتھ تنازعے کی صورت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ مستقبل میں مزید خلیجی ممالک کی شمولیت کے بعد پاکستان سے جنگ کی صورت میں بھارت کے لیے تیل کا حصول ناممکن ہو جائے گا۔ بھارت کو اپنی اقتصادی اور عسکری حکمت عملی ازسرِنو طے کرنی ہوگی۔پاکستان کے لیے یہ معاہدہ بے پناہ فوائد کا حامل ہے۔

سعودی سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں، خصوصاً توانائی، صنعت اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں۔ مزدور مارکیٹ میں پاکستانی افرادی قوت کے لیے مزید مواقع پیدا ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر پاکستان کی سفارتی حیثیت مضبوط ہوگی اور اسے خطے میں ایک فیصلہ کن کھلاڑی کے طور پر دیکھا جائے گا۔ دفاعی صنعت میں پاکستان کا کردار وسعت اختیار کرے گا اور عالمی سطح پر اس کی عسکری صلاحیتوں کو تسلیم کیا جائے گا۔چین کے لیے بھی یہ معاہدہ ایک اہم موقع ہے۔

پاکستان پہلے ہی چین کا قریبی دفاعی پارٹنر ہے۔ اس اتحاد کے نتیجے میں چین کو مشرق وسطیٰ میں اپنے ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی رسائی میں سہولت مل سکتی ہے۔ پاکستان بذریعہ ایک تجارتی کوریڈور کے طور پر استعمال ہو کر سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں تک چینی اسلحہ پہنچا سکتا ہے۔ اس طرح امریکا کے مقابلے میں چین کو خطے میں ایک متبادل ہتھیار فراہم کرنے والا شراکت دار تسلیم کیا جائے گا۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان اور سعودی عرب کا یہ معاہدہ محض ایک دفاعی مفاہمت نہیں بلکہ ایک نئی ریجنل صف بندی کا آغاز ہے۔

اس نے امریکا کی کمزور ہوتی ہوئی دفاعی ضمانتوں کو بے نقاب کیا، اسرائیل کی نیوکلیئر اجارہ داری کو چیلنج کیا، اور بھارت کے جیوپولیٹیکل منصوبوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ سرمایہ کاری اور عسکری شراکت داری کے نئے راستے کھولتا ہے۔یہ کہنا بجا ہے کہ آنے والے برسوں میں مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی سیاست اس معاہدے کے اثرات کے گرد گھومے گی، اور پاکستان ایک مرتبہ پھر خطے کے اسٹریٹجک نقشے میں مرکزی حیثیت اختیار کر لے گا۔

تحریر : مہتاب عزیز

Read Previous

پاکستان اور سعودی عرب کا تاریخی اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ – جارحیت کی صورت میں مشترکہ ردعمل کا اعلان

Read Next

ترک سفیر عرفان نیزیراوغلو کی وفاقی وزیرِ صحت سید مصطفی کمال سے ملاقات”

Leave a Reply