خطے میں جاری پاک بھارت کشیدگی کے دوران برادر اسلامی ملک ترکیہ کی حکومت اور عوام کی جانب سے پاکستان کے مؤقف کی غیر متزلزل حمایت نے بھارت کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے۔ ترکیہ کی قیادت اور عوام نے سوشل میڈیا اور قومی میڈیا کے ذریعے نہ صرف پاکستان سے یکجہتی کا بھرپور اظہار کیا، بلکہ بھارت اور اس کے اتحادی اسرائیل کے استعماری عزائم کو بھی بے نقاب کیا۔
ترک قومی اسمبلی کے رکن اور پاک ترک دوستی کے چیئرمین علی شاہین نے پاکستان کے مؤقف کو مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ بھارت، اسرائیل کے طرز پر کشمیر پر قبضے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے اور خطے کو "نیوکلئیر فری سیکیورٹی زون” میں بدلنے کی صہیونی سازش کا حصہ ہے۔ علی شاہین نے خبردار کیا کہ پاک بھارت کشیدگی دنیا کی سب سے آسانی سے ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے والی کشمکش ہے، جو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل، بھارت، اور امریکہ ایک نیا عسکری اتحاد تشکیل دے چکے ہیں، جبکہ دوسری طرف چین، روس اور پاکستان خطے میں توازن قائم کرنے کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ترکیہ کی جانب سے پاکستان کی حمایت صرف سفارتی نہیں، بلکہ اصولی اور نظریاتی بنیادوں پر ہے۔
ترکیہ کے اس جرات مندانہ مؤقف پر بھارت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ بھارتی سوشل میڈیا پر ترک مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑ گئی، جس میں Arçelik، Beko، Vestel، Ülker، Çaykur اور Turkish Airlines جیسے معروف برانڈز کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ بائیکاٹ اس وقت شروع ہوا جب پاکستان کی طرف سے اسرائیلی ساختہ ڈرونز کو مار گرائے جانے اور ترک ساختہ ہتھیاروں کے استعمال کی خبریں منظر عام پر آئیں، جنہوں نے بھارت-اسرائیل اتحاد کو زبردست دھچکا پہنچایا۔
بھارتی میڈیا میں انطالیہ میں ہونے والی مہنگی شادیاں بھی تنقید کا نشانہ بنیں، اور "#TurkeyBoycott” جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرنے لگے۔ مگر ترک سیاحتی ماہرین کا مؤقف ہے کہ بھارتی سیاحوں کی تعداد مجموعی سیاحت کا معمولی حصہ ہے۔ انطالیہ کے ٹور آپریٹر گوکھان سونمز کے مطابق، "ہندوستانیوں کے نہ آنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ترکیہ ایک بڑی اور مضبوط سیاحتی طاقت ہے۔ روس، جرمنی، برطانیہ، پولینڈ اور نیدرلینڈ سے آنے والے سیاحوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔”
پاکستان کی جانب سے ترکیہ کے لیے سیاحتی تعاون کی یقین دہانی دی گئی ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں "Discover Turkey’s Tourism Potential” کے عنوان سے منعقدہ سیاحتی میلے میں دونوں ممالک کے درمیان نئے معاہدے بھی طے پائے۔ پاکستان کی جانب سے ترک سیاحت کے فروغ کے لیے سوشل میڈیا پر مہم بھی شروع ہو چکی ہے، جس کا مقصد بھارت کے بائیکاٹ کے منفی اثرات کا ازالہ کرنا ہے۔
ہر سال ترکیہ میں 250 سے 300 ہزار بھارتی سیاح آتے ہیں، جبکہ ترکیہ سے تقریباً 40 ہزار سیاح بھارت کا رخ کرتے ہیں۔ بائیکاٹ کی موجودہ صورتحال دونوں اطراف کے سیاحتی روابط کو متاثر کر سکتی ہے، تاہم ترک سیاحت پر اس کا اثر محدود رہے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2025 ترک سیاحت کے لیے "سنہری سال” ثابت ہوگا، اور پاکستانی، یورپی اور چینی سیاح اس خلا کو بخوبی پُر کر سکتے ہیں۔
ترکیہ کا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا نہ صرف دوستی کا عملی ثبوت ہے بلکہ عالم اسلام میں اتحاد، یکجہتی اور باہمی تعاون کی روشن مثال بھی ہے۔ موجودہ حالات میں ترکیہ کی حمایت پاکستان کے لیے نہایت اہم ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ حق اور انصاف کی بنیاد پر قائم تعلقات کسی بھی عالمی دباؤ یا بائیکاٹ سے متزلزل نہیں ہو سکتے۔۔
