حماس کے ترجمان ڈاکٹر خالد قدومی نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ نظریاتی جنگ ہے ۔ طوفان الاقصیٰ نے ایک لمبے عرصے کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عمل روک دیا ہے۔ ڈاکٹر خالد قدومی لاہور میں یونیفائیڈ میڈیا کلب کے تحت سینیئر صحافیوں کے ساتھ نشست میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر ایتمار ابن غفیر نے کھلے عام اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ فلسطینوں کو جینے کا کوئی حق نہیں، یہ استحقاق صرف اسرائیل کو حاصل ہے۔ اسی طرح اسرائیلی نصاب میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ اہلیان غزہ کو جلانا ہے اور اسرائیلیوں کو باقی رکھنا ہے۔
اس بنا پر وہ سمجھتے ہیں کہ 7 اکتوبر کا حملہ اپنی نوعیت یعنی نظریے نہیں بلکہ اپنی شدت کی وجہ سے سرپرائز تھا، ورنہ عرصوں پر محیط یہ جنگ نظریاتی جنگ ہے۔
حماس نے جنگ کا راستہ کیوں اپنایا؟
ڈاکٹر خالد قدومی نے جنگ کی وجوہات کا تزکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سفارتی سطح پر دنیا اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے تقسیم سے متعلق قرار داد میں 45 فیصد حصے پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جبکہ 55 فیصد پر اسرائیلی ریاست کے قیام کی منظوری دی۔ قانونی طورپر ان قراردادوں پر عمل درآمد نہیں ہوسکا جبکہ اس کے برابر قتل عام بھی جاری رہا۔
انہوں نے کہا کہ 1991 میں اسرائیل نے خودساختہ طورپر فلسطین کے ٹکڑے کیے۔ 80 فیصد حصے پر مکمل طور پر اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ باقی 20 فیصد میں القدس کو آن ٹیبل ہی نہیں رکھا گیا۔ اسی طرح بقیہ حصے کو بھی مزید تین حصوں میں تقسیم کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس کے بعد بھی حماس مزاحمتی راہ نہیں اپناتا تو کیا کرتا؟
‘طوفان الاقصیٰ "سیف القدس 2” تھا’
ڈاکٹر خالد قدومی کہتے ہیں کہ طوفان الاقصیٰ کی تیاری بہت پہلے سے جاری تھی۔ یہ طوفان دراصل 2021 میں ہونے والے سیف القدس کی توسیع ہے جو 5 دن تک جاری رہی۔ 7 اکتوبر یوم کپور کی وجہ سے محض فیلڈ سیلیکشن تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کی طرف سے بچوں اور عام لوگوں پر بربریت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل حواس باختہ ہو کر یہ جنگ مکمل طور پر ہار چکا ہے۔ اسپتالوں پر ٹینک چڑھانے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اندر سے کتنے خوفزدہ ہے۔ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔
حماس کو پاکستان سے کیا توقع ہے؟
پاکستانی عوام نے شعوری طور پر فلسطین کے حق میں اپنے تئیں آواز بلند کی۔ ڈاکٹر خالد قدومی کے مطابق سرکاری سطح پر باہمی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان محض دھمکی دے کر اپنی ذمہ داری ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے شاہ فیصل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1973 میں سعودی بادشاہ نے صرف دھمکی دی اور اس کے اثرات نمایاں ہوئے۔
دو ریاستی حل کے پاکستانی موقف پر انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس موقف کو اپنانے سے اچھا ہے آپ چپ رہیں۔ یہ موقف ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاؤہ تمام عالمی فورمز پر فلسطینوں کے حق میں اسرائیل کے خلاف پاکستان کی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
کیا حماس دو ریاستی حل چاہتا ہے؟
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 2018 میں حماس کی پالیسی میں تبدیلی محض ایک تجویز تھی۔ اس وقت ہم نے یہ بات سامنے رکھی کہ اگر دو ریاستی حل پر اہلیان فلسطین نے رضامندی کا اظہار کیا تو ہم بھی اس کی پشت پر اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ تاہم، عوام نے ہمارا ساتھ دیا جبکہ 7 اکتوبر سے پہلے خود اسرائیل کی جانب سے دو ریاستی حل کی کوئی بات سامنے نہیں تھی۔
"حماس نے اسرائیل کو شہادتوں کا لائسنس دے دیا”
دوران نشست ان سے پوچھا گیا کہ حماس نے حملہ کر کے ہزاروں افراد اور بچوں کو شہید کرنے کے لیے اسرائیل کو جواز فراہم کیا۔ انہوں نے جواباً کہا کہ اس سے پہلے بھی آئے روز فلسطینی شہید ہو رہے تھے۔ ہم سفارتی، قانونی اور عالمی سارے راستے دیکھ چکے ہیں۔ جس ماں کے بچے شہید ہوئے کیا ہم ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ جہاد کی کیا ضرورت ہے؟
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا تو تصور ہی یہ ہے کہ سارا فلسطین ہمارا ہے۔ سارے رستوں پر ناکامی کے بعد کیا جہاد کے سواء کوئی راستہ باقی رہتا ہے؟
